شیخ محمد بن علی اپنی کتاب'' دلیل الطالب الی نھایۃ المطالب ''میں فرماتے ہیں ،''راہِ سلوک کا مسافر جب خرقہ پہننے کا ارادہ کرے تو اس پر واجب ہے کہ وہ اپنی پہلی زندگی میں پہنے جانے والے کپڑوں کو خیر آباد کہہ دے ۔اور اس گروہ کا بہترین لباس صوف ہے جس کی طرف انہیں منسوب بھی کیا جاتا ہے(اور انہیں صوفی کہا جاتا ہے) ۔ یہ بھی کہا گیا ہے کہ بے شک سب سے پہلے حضرت آدم علیہ السلام اور حوا رضی اللہ عنہا نے اس لباس کو پہنا ، حضرت موسیٰ، عیسیٰ اور یحیی (علیھم السلام) اس لباس کو پہنا کرتے تھے، اور ہمارے نبی جو سب نبیوں سے افضل ہیں ،بھی ایک عباء زیب ِ تن فرمایا کرتے تھے جس کی قیمت پانچ درہم تھی ۔
صوف کا لباس اسی شخص کو پہننا چاہے جس کا نفس غلاظتوں سے پاک ہوچکا ہو۔ حضرت سیدنا حسن بصری رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلي اللہ عليہ وسلم
نے ارشاد فرمایا ، ''تم اس وقت تک لباسِ صوف نہ پہنو جب تک اپنا دل پاکیزہ نہ کر لو ۔'' کیونکہ جو ناقص اورادھورا ہونے کے باوجود لباس ِ صوف پہنے گا، اللہ تعالیٰ اسے دھتکار دے گا ۔ پس جب کوئی شخص لباس ِ صوف پہنے تو اس کے حروف(یعنی ص، و، ف) کے وظائف بھی اپنائے۔یہ وظائف تین ہیں ، ۔۔۔۔۔۔
(1) صاد کا وظیفہ صدق(یعنی اخلاص)، صفا(یعنی پاکیزگی) ، صیانت(یعنی گناہوں سے بچنا) ، صبر اور صلاح (یعنی نیکی )ہے ، ۔۔۔۔۔۔
(2) واؤ کا وظیفہ وصلہ(یعنی پہنچنا)، وفانبھانااوروجد(یعنی پالینا)ہے ،۔۔۔۔۔۔