زندگی سے پردہ فرمانے کے بعد بھی؟ارشاد فرمایا:”وَبَعْدَ الْمَوْتِ“ہاں میرے اس دنیا سے جانے کے بعد بھی۔ کیونکہ ”إِنَّ اللہَ حَرَّمَ عَلَى الْاَرْضِ اَنْ تَاْكُلَ اَجْسَادَ الْاَنْبِیَاءِ “اَللہ عَزَّ وَجَلَّنے زمین پر حرام کیا ہے کہ وہ انبیائے کرام کے جسموں کو کھائے بلکہ ”فَنَبِیُّ اللہِ حَیٌّ یُّرْزَقُ“اَللہ عَزَّ وَجَلَّکے نبی زندہ ہیں اور رزق دیئے جاتے ہیں۔(سنن ابن ماجہ، کتاب الجنائز، باب ذکر وفاتہ و دفنہ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم، الحدیث:1636،ج 2،ص 290)
صَلُّوا عَلَی الْحَبیب! صلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلٰی مُحَمَّد
سِیرَتِ سیِّدُنا اَبُو دَرْدَاء
رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنہُ
مدینہ منورہ پر جب شہنشاہِ خوش خِصال، پیکرِ حُسن وجمال، دافع رنج و مَلال صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَآلِہٖ وَسَلَّمکے جلووں کی برسات چھما چھم برسی اور نیکی کی دعوت کا پیغام عام ہونے لگا تو اس کی آواز سیِّدُنا عبداللہ بن رواحہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہ نےبھی سنی اور آخرکار وہ اسلام کی حقانیت کو دل و جان سے تسلیم کرتے ہوئے دائرہ اسلام میں داخل ہو گئے۔
حضرت سیِّدُنا عبداللہ بن رواحہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہ جب مسلمان ہوئے اور انہوں نے جانا کہ اسلام خیر خواہی کا درس دیتا ہے۔ اور حقیقی ایمان والا بندہ وہی ہے جو اپنے بھائی کے لئے بھی وہی پسند کرے جو اپنے لئے پسند کرتا ہے۔ تو آپ سوچنے لگے کہ وہ خود تو جہنم کی آگ کا ایندھن بننے سے بچ گئے ہیں مگر ان کے بھائی عُوَیمر ابھی تک کفر کی تاریکیوں میں بھٹک رہے ہیں۔ چنانچہ،