صَرفِ بَہائى |
یادرکھ اے پیارے بھائی!کہ حروف اصلیہ ثلاثی میں تین ہوتے ہیں : فاء، عین اور ایک لام(۱) ۔جیسے ضَرَبَ بروزن فَعَلَ۔ رباعی میں چا ر ہوتے ہیں : فاء،عین اور دو لام۔ جیسے دَحْرَجَ بروزن فَعْلَلَ۔ اور خماسی میں پانچ ہوتے ہیں :فاء،عین اور تین لام ۔جیسے جَحْمَرِشٌ بروزن فَعْلَلِلٌ۔خیال رہے کہ ثلاثی کی پھردو قسمیں ہیں(۲): (۱)ثلاثی مجرد(۳) (۲) ثلاثی مزید فیہ(۴)۔
ـــــــــــــــــــــــــــــــــــ ـــــــــــــــــــــــــــــــــــ 1۔۔۔۔۔۔قولہ: ( فاء عین اورایک لام) علمائے صرف کی اصطلاح میں کسی کلمہ کے ''فاء کلمہ'' سے مراد وہ حرف ہے جو اس کے وزن کے فاء کے مقابلہ میں ہو، اور عین کلمہ سے مراد وہ حرف ہے جو عین کے مقابل ہو، اور پہلے لام سے مراد وہ حرف ہے جو پہلے لام کے مقابلہ میں ہو، اور دوسرے لام سے مرادوہ ہے جو دوسرے لام کے مقابلہ میں ہو، اور تیسرے لام سے مراد وہ حرف ہے جو تیسرے لام کے مقابلہ میں ہو۔ جیسے: جَحْمَرِشٌ بروزن فَعْلَلِلٌ۔ میں جحمرش کا جیم فاء کلمہ ہے، حاء عین کلمہ ہے، میم پہلالام ہے ، راء دوسرا لام ،اور شین تیسرا لام ہے۔ 2۔۔۔۔۔۔قولہ: ( ثلاثی کی پھردو قسمیں ہیں) یعنی (۱)ثلاثی مجرد( ۲)ثلاثی مزید فیہ،اسی طرح رباعی اورخماسی کی بھی دودو قسمیں ہیں، انہی چھ اقسام کو ''شش اقسام ''کہتے ہیں۔ 3۔۔۔۔۔۔ قولہ: (ثلاثی مجرد)مجرد تجرید سے صیغہ اسمِ مفعول ہے ،اس کا لغوی معنی ہے'' خالی کیاہوا''، اور اصطلاح میں اس سے مراد وہ کلمہ ہے جس میں صرف حروف اصلیہ ہی ہوں اورکوئی زائد حرف نہ ہو، گویا وہ کلمہ حرف زائد سے خالی کیا ہواہوتاہے۔ جیسے: نَصَرَ، نُوْرٌ ، دَحْرَجَ، جَعْفَرٌ۔ 4۔۔۔۔۔۔قولہ: ( مزید فیہ) مزید''زَادَ، یَزِیْدُ''سے صیغہ اسمِ مفعول ہے، اصل میں'' مَزْیُوْدٌ'' تھا؛ یاء کا ضمہ ما قبل کو دے کر یاء کی موافقت کی لیے ضمہ کو کسرہ سے بدلا،'' مَزِیْوْدٌ'' ہوا، پہلی یاء التقائے ساکنین سے گرگئی ''مَزِوْدٌ'' ہوا، واوساکن ماقبل کسرہ کو یاء سے بدلاتویہ'' مزید'' ہوگیا۔ اس کا لغوی معنی ہے ''زیادہ کیاہوا'' ، ''فیہ ''کا معنی ہے'' اس میں'' اور اصطلاح میں مزید فیہ وہ کلمہ ہے جس میں حروف اصلیہ کے علاوہ کوئی حرف زائد بھی ہو۔ جیسے: اَکْرَمَ بروزن اَفْعَلَ اورقِرْطَاسٌ