ـــــــــــــــــــــــــــــــــــ ـــــــــــــــــــــــــــــــــــ
نہیں مل سکا۔
1۔۔۔۔۔۔قولہ: ( ثلاثی اوررباعی)خیال رہے کہ فعل خماسی نہیں ہوتا،نہ مجرد نہ مزیدفیہ؛کیونکہ فعل معنی ثقیل ہوتا ہے اس لیے کہ یہ حدث پردلالت کرتا ہے نیز فاعل اور زمانہ کی طرف نسبت کا محتاج ہے، اب اگر فعل خماسی بھی ہوتا تو اس میں لفظا اور معنی دونوں طرح ثقل لازم آتا۔ ہاں! فعل سداسی کی ایک مثال'' حجلنجع ''ہے۔مگر یہ شاذ ہے۔
2۔۔۔۔۔۔قولہ: (معلوم ہونا... الخ)مصنف علیہ الرحمۃ نے حرف کی تقسیم نہیں کی حالانکہ حرف احادی،ثنائی، ثلاثی، رباعی اور خماسی آتا ہے ۔جیسے: ہمزہ استفہام ، من ، لیت، لعلاور لکن؛اس لیے کہ حروف معانی جو کلمہ کی ایک قسم ہیں، یہاں ان کا ذکر کرنا مقصود نہیں؛ کیونکہ صرفی ایسے کلمہ سے بحث کرتے ہیں جو فعل متصرف اور اسم متمکن ہو،اور حرف میں تصرف نہیں ہوتا۔ اوراسی بناء پر اسم غیر متمکن کو بھی اسم کی تقسیم میں شامل نہیں کیاتھا۔
3۔۔۔۔۔۔قولہ: (کلام عرب کامیزان ) میزان اصل میں'' مِوْزَانٌ'' تھا، واو ساکن ماقبل مکسورکو یاء سے بدل دیاتو''میزان'' ہوگیا۔ میزان لغت میں وزن کرنے کا آلہ یعنی ترازو کو کہتے ہیں، اور اہل صرف کی اصطلاح میں میزان سے مرادوہ حروف ہیں جن سے کلمات عرب کا موازَنہ اور مقابلہ کیا جائے تاکہ اصلی اور زائد حروف کے درمیان امتیازہوجائے۔اسی کو''موزون بہ''بھی کہتے ہیں یعنی جن سے وزن کیا گیا،اورعرب میں میزان اور موزون بہ کو'' وزن'' بھی کہتے ہیں۔ اور جس کلمہ کے حروف کو فاء عین اور لام کے مقابلہ میں لائیں گے اس کو'' موزون'' کہیں گے یعنی وزن کیا گیا۔جیسے: نَصَرَ بروزن فَعَلَ میں نَصَرَ کو'' موزون'' اورفَعَلَ کو اس کا'' میزان ''یا'' موزون بہ'' یا'' وزن'' کہیں گے ۔اور کلمہ کے حروف کو فاء عین اور لام کے مقابل کرنے کو'' وزن کرنا''کہتے