ـــــــــــــــــــــــــــــــــــ ـــــــــــــــــــــــــــــــــــ
1۔۔۔۔۔۔قولہ: ( من ، الی)مصنف علیہ الرحمۃ نے اسم ،فعل اور حرف میں سے ہر ایک کی دو دو مثالیں ذکرفرمائی کیوں کہ اسم کی دوقسمیں ہیں: مصدر اور جامد ،رجل اسم جامد کی مثال ہے اور علم مصدر کی ، اور فعل کی بھی دو قسمیں ہیں :ثلاثی اوررباعی،ضرب ثلاثی کی مثال ہے اور دحرج رباعی کی، اور حرف کی دو مثالیں اس لیے ہیں کہ حرف کامعنی طرف ہے اور ہر چیز کی دو طرفیں ہوتی ہیں:ابتداء اورانتہاء، لہذا من ابتداء کے لیے اور الٰی انتہاء کے لیے ہے ۔
2۔۔۔۔۔۔قولہ: ( اسم کی تین قسمیں ہیں)یہاں اسم سے مراد اسم جامد متمکن ہے کیونکہ مشتق اور مصدر فعل کی طرح ثلاثی ورباعی ہی ہوتے ہیں خماسی نہیں ہوتے، خماسی صرف اسم جامد ہی ہوتاہے۔ اگر کہیے کہ اسم احادی (ایک حرف والا)اورثنائی(دوحروف والا)بھی ہوتاہے۔ جیسے:کاف خطاب اورھو،توان دونوں قسموں کومصنف نے تقسیم میں کیوں شامل نہیں کیا؟توہم کہیں گے اس لیے کہ احادی اورثنائی اسم غیر متمکن ہی ہوتے ہیں اور یہ تقسیم اسم متمکن کی ہے۔
3۔۔۔۔۔۔قولہ: ( ثلاثی تین حروف والے... الخ )ثلاثی کا لغوی معنی ہے تین والا ،اور اصطلاحِ اہل صرف میں وہ کلمہ ہے جس میں تین حروف اصلیہ ہوں خواہ ان کے ساتھ کوئی زائدحرف بھی ہو۔ جیسے: کتاب، یا زائد حرف نہ ہو۔ جیسے: رجل ۔اور اسی طرح رباعی اور خماسی ہیں۔(فائدہ) کبھی ثلاثی سے مراد مطلقا سہ حرفی کلمہ ہوتا ہے، اور اسی طرح رباعی اور خماسی سے مطلقا چار حرفی او رپانچ حرفی کلمہ مراد ہوتا ہے، خواہ تمام حروف اصلی ہوں یا بعض حروف اصلی ہوں اور بعض زائد، اسم متمکن ہو یا غیر متمکن، فعل متصرف ہو یا غیر متصرف ، اورخواہ وہ کلمہ حرف ہی کیوں نہ ہو۔ جیسے: اکرم اوردحرج رباعی ہیں،اور اجتنب، یجتنب خماسی ہیں۔
4۔۔۔۔۔۔ قولہ: (جعفر )جعفربمعنی'' نہر صغیر''یا''نہرکبیر'' لہذایہ لغات اضداد سے ہے، نیز اس کا معنی'' ناقہ فربہ'' بھی ہے ۔البتہ جعفر بمعنی ''خربوزہ'' ،یا بمعنی ''گدھا'' لغت کی معتبر کتابوں سے