Brailvi Books

صَرفِ بَہائى
12 - 53
....... عِلْمٌ(۱)، (۲)فعل(۲)،جیسے ضَرَبَ، دَحْرَجَ، اور(۳) حرف(۳)،جیسے مِنْ،
ـــــــــــــــــــــــــــــــــــ ـــــــــــــــــــــــــــــــــــ

نزدیک اسم کو اسم اس لیے کہتے ہیں کہ اسم کا لغوی معنی بلندی ہے اوراسم اصطلاحی بھی اپنے دونوں قسیمین (فعل اور حرف) سے مرتبہ میں بلند ہے ؛کیونکہ اسم مسند الیہ اور مسند ہوسکتاہے اور فعل مسند ہوتا ہے ،مسند الیہ نہیں ہوتااور حرف نہ مسند ہوتا ہے نہ مسند الیہ ۔اورکوفیین کے نزدیک اسم کو اسم کہنے کی وجہ یہ ہے کہ اسم کا لغوی معنی نشانی ہے اور اسم اصطلاحی بھی اپنے مسمیٰ پر علامت ہوتاہے ۔اصطلاح میں اسم وہ کلمہ ہے جو مستقل معنی پر دلالت کرے اورباعتبار وضع اول تینوں زمانوں میں سے کوئی زمانہ اس میں نہ ہو۔ جیسے رَجُلٌ ، عِلْمٌ ۔

1۔۔۔۔۔۔قولہ: (رجل اورعلم)یہ اسم کی مثالیں ہیں،اور اسم کی بعض علامتیں یہ ہیں:(۱) اس کے اول میں الف لام ہونا۔ جیسے: الحمد۔ (۲) اول میں حرف جر ہونا۔ جیسے: للہ۔(۳)آخر میں تنوین ہونا ۔جیسے: محمد۔(۴)مسند الیہ ہونا۔ جیسے: محمد رسول اللہ۔(۵) مضاف ہونا۔ جیسے: محب اللہ۔ (۶)مصغّر ہونا۔ جیسے: حسین۔(۷)منسوب ہونا۔ جیسے: مدنی، نوری۔ (۸)تثنیہ ہونا ۔جیسے: عالمان۔ (۹)جمع ہونا۔ جیسے: عالمون۔(۱۰)موصوف ہونا۔ جیسے: رجل عالم۔ (۱۱)آخر میں تائے متحرکہ ہونا جو بوقت وقف ''ہاء ''ہوجائے ۔جیسے: فاطمۃ۔(۱۲)مستثنی ہونا۔جیسے:جاء نی القوم الازیدا۔ 

2۔۔۔۔۔۔ قولہ: (فعل)فِعل(فاء کے کسرہ کے ساتھ) اسم مصدر ہے، اورفَعل(فاء کے فتحہ کے ساتھ) مصدر ہے ۔ اس کالغوی معنی ہے'' کام''، اور اصطلاح میں فعل وہ کلمہ ہے جو مستقل معنی پر دلالت کرے اورباعتبار وضع اول تینوں زمانوں میں سے کو ئی زمانہ اس میں نہ پایاجائے ۔ جیسے: نَصَرَ، یَنْصُرُ۔

فعل اصطلاحی کو فعل اس لیے کہتے ہیں کہ اصطلاحی فعل ،لغوی فعل( حدث، معنی مصدری) کو اپنے ضمن میں لیے ہوئے ہوتاہے ۔

3۔۔۔۔۔۔قولہ: (ا ورحرف) حرف کالغوی معنی ہے ''کنارہ''کہاجاتاہے: جلست علی حرف الوادی(میں وادی کے کنارے پر بیٹھا) اور اصطلاح میں حرف وہ کلمہ ہے جو مستقل معنی پر دلالت نہ کرے ۔حرف کو حرف اس لیے کہتے ہیں کہ یہ کلام میں طرف اور کنارہ پر ہوتاہے یعنی نہ مسند الیہ ہوتاہے اور نہ مسند ۔
Flag Counter