Brailvi Books

صَرفِ بَہائى
11 - 53
عرب(۱) کے کلمات(۲) کی تین قسمیں ہیں(۳) : (۱)اسم(۴) ،جیسے رَجُلٌ،.
ـــــــــــــــــــــــــــــــــــ ـــــــــــــــــــــــــــــــــــ

ہوکر التقائے ساکنین سے گری اورآخر میں تاء عوض لائے ۔لغت کالغوی معنی ہے بولی یعنی ایسی آوازیں جن کے ذریعہ ہر قوم اپنے اغراض ومقاصد بیان کرے، اور اصطلاح میں لغت وہ علم ہے جس سے کسی زبان کے مفردات کے معنی وضعی اورطریقہ استعمال معلوم ہو ۔ 

1۔۔۔۔۔۔قولہ: (عرَب)عَرَبعین اورراء کے فتحہ، یاعین کے ضمہ اورراء کے سکون کے ساتھ ،یہ اس مقدس ملک کانام ہے جس میں نبی محترم شافع امم سیدالانبیاء سرور عالم محمد مصطفی صلی اللہ تعالی علیہ وسلم پیداہوئے اور تشریف فرماہیں ۔

2۔۔۔۔۔۔قولہ: ( کلمات۔۔۔الخ)کلمات کلمہ کی جمع ہے اور کلمہ جمہورنحات کے نزدیک غیر مشتق ہے، اور بعض حضرات فرماتے ہیں یہ کَلْمٌ سے ماخوذ ہے جس کالغوی معنی ''زخمی کرنا ''ہے ۔اور اصطلاح میں کلمہ اس ایک لفظ کو کہتے ہیں جو کسی معنی کے لیے وضع کیاگیا ہو، اور کلمہ کے لغوی معنی(زخمی کرنا)اور اصطلاحی معنی میں مناسبت یہ ہے کہ بعض کلمات بھی اس طرح اثر کرتے ہیں جس طرح زخم کااثر ہوتاہے جیساکہ مقولہ ہے: جراحۃ اللسان اصعب من جراحۃ السنان یعنی زبان(کلام) کازخم تلوار نیزے کے زخم سے زیادہ سخت ہے ۔

3۔۔۔۔۔۔قولہ: (تین قسمیں ہیں) ان تین قسموں کو'' سہ اقسام'' بھی کہتے ہیں ،قسم کالغوی معنی'' حصہ'' ہے یا''شے مقسوم کا جزء'' ہے ۔اگر کہیے کلمہ کی تین ہی قسمیں کیوں ہیں؟تو ہم کہیں گے اس لیے کہ کلمہ دو حال سے خالی نہیں یاتو مستقل معنی ٰ پر دلالت کریگایانہیں ۔اگرنہ کرے توحرف ہے،اوراگر کریگاتوپھردوحال سے خالی نہیں یاتواس میں زمانہ پایاجائے گایانہیں اگرپایاجائے گا تو فعل ہے ورنہ اسم۔

4۔۔۔۔۔۔قولہ: (اسم)اسم کالغوی معنی نشانی یابلندی ہے ،عرف میں بمعنی نام استعمال ہوتا ہے، بصریوں کے نزدیک یہ اصل میں'' سِمْوٌ'' تھا بمعنی بلندی سَمَا یَسْمُوْ سے ،واو پر ضمہ ثقیل ہونے کی وجہ سے گرگیا،واو بھی التقائے تنوین کے سبب گرگئی،اور اس واو کے عوض اول میں ہمزہ لائے اور سین کا کسرہ نقل کرکے ہمزہ کو دیااور میم پر اعراب جاری ہوا،لہذا ''اِسْمٌ'' بروزن'' اِفْعٌ'' ہے۔ اور کوفیوں کے نزدیک اس کی اصل ''وِسْمٌ''ہے بمعنی ''نشانی''اور''داغ کرنا''، واوکو حذف کرکے اس کے عوض ہمزہ لائے۔اس تقدیر پر ''اِسْمٌ'' بروزن ''فِعْلٌ'' ہوگا۔بصریین کے
Flag Counter