ہوجاتی۔وہ شدید تکلیف و کمزوری کے باوُجود کھڑکی کا سہارا لے کرپردے کی احتیاط کے ساتھ ادباً کھڑی ہوجاتیں اور صلٰوۃ وسلام کی صداؤں میں گُم ہوجاتیں۔ ان کی آنکھوں سے آنسو جار ی ہو جاتے حتٰی کہ بارہا روتے روتے ہچکیاں بندھ جاتیں اور جب تک مختلف مساجد سے صلٰوۃ وسلام کی آوازیں آنا بند نہ ہوتیں وہ اسی طرح ذوق و شوق اور رِقّت کے ساتھ صلٰوۃ وسلام میں حاضر رہتیں۔ گھر والے ترس کھا کر بیٹھنے کا مشورہ دیتے تو روتے ہوئے انہیں منع کردیتیں۔ ان کی زبان پروقتاً فوقتاً بِسْمِ اللہ،کَلِمَہ طَیِّبہ اوردُرودِپاک کا وِرْد جاری رہتا۔
۱۵ رَمَضانُ المبارَک۱۴۱۵ھ کو انہوں نے بڑی بہن سے پانی مانگا،پانی پینے سے قبل دوپٹا سر پر رکھا، بِسْمِ اللہ شریف پڑھی اور پھر پانی پی کر ایک دم لیٹ گئیں ۔ بہن نے سنبھالنے کی کوشش کی تودیکھا کہ اُن کی روح قفسِ عنصری سے پروا ز کرچکی تھی۔