و مِلَّت، حامیٔ سُنَّت، ماحِیِ بِدعت، عالِمِ شَرِیعت، پیرِ طریقت، باعثِ خَیرو بَرَکت، حضرتِ علّامہ مولیٰنا الحاج الحافِظ القاری شاہ امام اَحمد رضا خانعَلَیْہِ رَحْمَۃُ الحَنّان نَقل فرماتے ہیں :’’پِیروں پر اعتِراض سے بچے کہ یہ مُریدوں کے لیے زہرِ قَاتِل ہے، کم کوئی مُرید ہوگا جو اپنے شیخ پر اعتراض کرے پھر فَلاح ( یعنی کامیابی) پائے، شیخ کے تَصَرُّفات سے جو کچھ اسے صحیح معلوم نہ ہوتے ہوں ان میں خِضر عَلَيْهِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلام کے واقِعات یاد کرلے کیونکہ ان سے وہ باتیں صادِر ہوتی تھیں ، بظاہِر جن پر سخت اِعتراض تھا (جیسے مِسکینوں کی کِشتی میں سُوراخ کردینا، بے گناہ بچے کو قتل کردینا) پھر جب وہ اس کی وجہ بتاتے تھے ظاہِر ہوجاتا تھا کہ حق یِہی تھا، جو اُنہوں نے کہا، یوں ہی مُرید کو یقین رکھنا چاہیے کہ شیخ کا جو فعل مجھے صحیح معلوم نہیں ہوتا ، شیخ کے پاس اس کی صحت پر دلیلِ قَطعی ہے۔‘‘حضرتِ سیِّدُنا اما م ابوالقاسِم قُشَیریرَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ’’رسالۂ قُشَیریہ ‘‘ میں فرماتے ہیں : میں نے حضرتِ سیِّدُنا ابوعبدالرحمن سُلَمیعَلَیْہِ رَحْمَۃُ اللہِ الْقَوِیکو فرماتے سُنا، ان سے ان کے شیخ حضرتِ ابوسَہل صعلوکیرَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ نے فرمایا: جو اپنے پِیر سے کسی بات میں ’’کیوں !‘‘ کہے گا کبھی فَلاح نہ پائے گا۔
[ رسا لہ قُشیریہ ص۲۷۶] (فتاوٰی رضویہ ج۲۱ص۵۱۰ تا ۵۱۱)
پیرِ کامل اور پیرِ ناقص
میٹھے میٹھے اسلامی بھائیو!بیان کردہ سرکارِ اعلیٰ حضرترَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہکا مبارَک فتویٰ صِرف جامِعِ شرائط پیریعنی پیرِ کامِل کے بارے میں ہے۔ جو پیر نبیِّ کریم کا