پر سے گزرے تو شیخ حمّادعَلَیْہِ رَحْمَۃُ اللہِ الْجَوَاد نے اچانک مجھے دھکا دے کرنہر میں گرادیا، سخت سردیوں کے دن تھے، میں نے بِسْمِ اللہپڑھ کر غسلِ جمعہ کی نیّت کرلی، جوں تُو ں پانی سے نکلااوراپنا صُوف(یعنی اُون )کا جُبَّہ نچوڑا اور قافِلے سے جا ملا ۔ شیخ حمّادعَلَیْہِ رَحْمَۃُ اللہِ الْجَوَادکے مُرید خوش طَبعی کرنے لگے،آپرَحْمَۃُ اللہِ تعالٰی عَلَیْہنے انہیں ڈانٹا اورفرمایا: میں نے عبدُ القادِر کا امتحا ن لیا جس میں اُن کو پہاڑ کی طرح مُستَحکَم پایا۔ حُضُور ِغوثِ اعظم عَلَیْہِ رَحْمَۃُ اللہِ الْاَکْرَمنے مزید فرمایا کہ میں نے اپنے استاذ سیِّدُنا شیخ حمّادعَلَیْہِ رَحْمَۃُ اللہِ الْجَوَاد کو ان کے مزار ِپُر انوار میں ہِیرے اورجواہِرات کے لبا س میں ملبوس سرپر یاقوت کا تاج پہنے، ہاتھوں میں سونے کے کنگن اورپاؤں میں سونے کے نعلینِ شریفین میں ملاحَظہ کیا، مگر تَعَجُّب خیز بات جو دیکھی وہ یہ تھی کہ ان کا دایاں (یعنی سیدھا)ہاتھ کام نہیں کررہا تھا! میر ے اِستِفسار پر بتایا: ’’یہ وُہی ہاتھ ہے جس سے میں نے آپ کونَہر میں دھکیلا تھا، کیا آپ مجھے مُعاف کرتے ہیں ؟ ‘‘ جب میں نے مُعاف کردیا تو اُنہوں نے کہا کہ آپاللہ عَزَّوَجَلَّ کی بارگاہ میں دعافرما دیجئے کہ میرا دایاں ہاتھ دُرُست ہوجائے ۔ لہٰذا میں اللہ عَزَّوَجَلَّسے دعا مانگتارہا اورپانچ ہزار اصحابِ مزار اولیاء ُ الغَفّاراپنے اپنے مزار میں اٰمین کہتے اورمیری سِفارش کرتے رہے یہاں تک کہ اللہ عَزَّوَجَلَّنے ان کا دایاں ہاتھ دُرُست فرمادیا جس سے اُنہوں نے خوش ہوکرمجھ سے مُصافحہ کیا۔
بغدادِ مُعلّٰی میں یہ خبر جب مشہورہوئی تو سیِّدُنا شیخ حمّاد عَلَیْہِ رَحْمَۃُ اللہِ الْجَوَادکے بعض