کہ دوسرے فُقَراء بھی اسی کی تلاش میں ہیں تو اپنے اسلامی بھائیوں پر ایثار کرتے ہوئے نہ اٹھاتا بلکہ یونہی چھوڑدیتا تاکہ وہ اُٹھاکر لے جائیں اورخود بھوکا رہتا۔ جب بھوک کے سبب کمزوری حد سے بڑھی اور قریبُ الْموت ہوگیا تو میں نے پھول والے بازار سے ایک کھانے کی چیز جو زمین پر پڑی تھی اٹھائی اورایک کونے میں جاکر اسے کھانے کیلئے بیٹھ گیا۔ اِتنے میں ایک عجمی نوجوان آیا، اُس کے پاس تازہ روٹیاں اوربھُنا ہوا گوشت تھا وہ بیٹھ کر کھانے لگا،اُس کو دیکھ کر میری کھانے کی خواہِش ایک دَم شدت اختیارکرگئی ، جب وہ اپنے کھانے کے لیے لُقمہ اٹھاتا تو بھوک کی بے تابی کی وجہ سے بے اختیارجی چاہتا کہ میں مُنہ کھول دوں تاکہ وہ میرے منہ میں لقمہ ڈال دے ۔ آخِر میں نے اپنے نفس کو ڈانٹا کہ ’’بے صبری مت کر اللّٰہ عَزَّ وَجَلَّمیرے ساتھ ہے، چاہے موت آجائے مگر میں اس نوجوان سے مانگ کر ہرگز نہیں کھاؤں گا۔‘‘
یکایک وہ نوجوان میری طرف مُتَوجِّہ ہوا اورکہنے لگا: بھائی !آجائیے آپ بھی کھانے میں شریک ہوجائیے!میں نے انکار کیا، اُس نے اِصرا ر کیا ، میرے نفس نے مجھے کھانے کے لئے بہت اُبھارا لیکن میں نے پھربھی انکار ہی کیا مگر اُس نوجوان کے پَیْہم اِصرار پر میں نے تھوڑا ساکھانا کھالیا،اُس نے مجھ سے پوچھا: آپ کہاں کے رہنے والے ہیں ؟ میں نے کہا: جِیلان کا ۔ وہ بولا: میں بھی جِیلان ہی کا ہوں ۔ اچّھایہ بتایئے آپ مشہور زاہِد حضرتِ سیِّدابو عبداللہ صومعیعَلَیْہِ رَحْمَۃُ اللہِ القَوِی کے نواسے عبدُالقادِرکو جانتے