(المسند للإمام أحمد بن حنبل، حدیث محمود بن لبید، الحدیث: ۲۳۶۹۲، ج۹، ص۱۶۰ )
میٹھے میٹھے اسلامی بھائیو! یہ پہلی حدیث ہے جس میں ریا کو شرکِ اصغر فرمایا گیا ہے۔ مشرک اپنی عبادات سے اپنے جھوٹے معبودوں کو راضی کرنے کی نیت کرتا ہے ،(اور)رِیا کار (مسلمان)اپنی عبادات سے اپنے جھوٹے مقصودوں یعنی لوگوں کوراضی کرنے کی نیت کرتا ہے۔ اس لیے ریا کارچھوٹے درجہ کا مشرک ہے اور اس کا یہ عمل چھوٹے درجہ کا شرک ہے۔ چونکہ ریا کار کا عقیدہ خراب نہیں ہوتا عمل وارادہ خراب ہوتا ہے اور کھلے مشرک کا(عمل وارادہ کے ساتھ ساتھ ) عقیدہ بھی خراب ہوتا ہے، اس لیے ریا کو چھوٹا شرک فرمایا۔
(مِرْاٰۃ المناجیح، ج۷،ص۱۴۴)
(2) حضرتِ سیِّدُنا ابوسعید خدری رضی اﷲ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں: ہم لوگ مسیح دَجّال ۱؎ کا ذکر کررہے تھے کہ رسول اﷲ صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم تشریف لائے اور فرمایا: میں(دجال كا ظاہر ہونا قيامت كی نشانيوں ميں سے ايك نشانی ہے)