حکیمُ الْاُمَّت حضرت مولانامفتی احمد یار خان نعیمی علیہ رحمۃ اللہ القوی لکھتے ہیں: ''رِیا کے بہت دَرَجے ہیں، ہر دَرَجے کا حکم علیحدہ ہے بعض رِیا شرک ِاَصغر ہیں ، بعض ریا حرام ،بعض ریا مکروہ، بعض ثواب۔ مگر جب رِیا مطلقاً بولی جاتی ہے تو اس سے ممنوع رِیا مراد ہوتی ہے۔
(مِرْاٰۃ المناجیح، ج۷، ص۱۲۷)
صَلُّو ا عَلَی الْحَبِیب ! صلَّی اللہُ تعالٰی علٰی محمَّد
میٹھے میٹھے اسلامی بھائیو! ریا سے بچنے کا حُکم خُود ہمارا معبود یعنی رب عَزَّوَجَلَّ دے رہا ہے چُنانچہ پارہ 16سورۃ الکہف میں ارشاد ہوا:
فَمَنۡ کَانَ یَرْجُوۡ لِقَآءَ رَبِّہٖ فَلْیَعْمَلْ عَمَلًا صَالِحًا وَّ لَا یُشْرِکْ بِعِبَادَۃِ رَبِّہٖۤ اَحَدًا ﴿۱۱۰﴾٪
ترجمہ کنزالایمان:تو جسے اپنے رب سے ملنے کی امید ہو، اسے چاہیے کہ نیک کام کرے اور اپنے رب کی بندگی میں کسی کو شریک نہ کرے۔(پ۱۶، الکہف: ۱۱۰)