چرائیں ، حضرت داؤد عَلَیْہِ السَّلَام زِرہ بناتے تھے ۔ حضرت سلیمانعَلَیْہِ السَّلَام اتنے بڑے بادشاہ ہو کر دَرختو ں کے پتوں سے پنکھے اور زَنبیلیں بنا کر گزر فرماتے تھے ۔ حضرت عیسیٰعَلَیْہِ السَّلَام سیرو سیاحت میں رہے ، نہ کہیں مکان بنایا ، نہ نکاح کیا اور فرماتے تھے کہ جس نے مجھے ناشتہ دیا ہے وہ ہی شام کا کھانا بھی دے گا ۔ حضور سیِّد عالَم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ واٰلہٖ وَسَلَّم نے بکریاں بھی چرائی ہیں اور حضرت خدیجہ رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہَا کے مال کی تجارت بھی فرمائی ۔ غرض ہر قسم کی حلال کمائیاں سُنَّتِ اَنبیاء عَلَیْہِمُ السَّلَام ہیں ، اس کو عار جاننا نادانی ہے ۔
مَزید فرماتے ہیں : عُلَمائے کِرام نے فرمایا کہ جا ئز پیشو ں میں تَرتیب ہے کہ بعض سے بعض اعلیٰ ہیں ۔ جن پیشو ں سے دِین ودُنیا کی بَقا ہے دو سرے پیشو ں سے اَفضل ہیں ۔ چنا نچہ (۱) بہترصَنعت دِینی تصنیف اور کتاب ہے کہ اس سے قرآن و حدیث اور سارے دِینی عُلُوم کی بَقا ہے ۔ (۲) پھر آٹے کی پِسائی اور چاول کی صاف کرائی کہ اس سے نفسِ اِنسان کی بَقا ہے ۔ (۳) پھر رُوئی دُھنائی ، سُوت کتائی اور کپڑا بننا ہے کہ اس سے سَتْر پوشی ہے ۔ (۴) پھر دَرزی گر ی کا پیشہ بھی کہ اس کا بھی یہی فائدہ ہے ۔ (۵) پھر روشنی کا سامان بنانا کہ دُنیا کو اس کی بھی ضَرورت ہے ۔ (۶) پھر مِعماری ، اِینٹ بنانا (بھٹہ) اورچُونے کی تیاری ہے کہ اس سے شہر کی آبادی ہے ۔ رہی زَرگری ، نَقاشی ، کار چو بی ، حَلوہ سازی ، عِطر بنانا یہ پیشے جائز ہیں مگر ان کا کوئی خاص دَرَجہ نہیں کیونکہ فقط زینت کے