کرائے اور دِیگر اَخراجات وغیرہ کا سُوال کرنا جائز نہیں کیونکہ یہ کام مستحب ہیں ایسی ضَروریات میں سے نہیں ہیں جن کے لیے سُوال کرنا حَلال ہو ، یہاں تک کہ حج و عمرہ اور سفرِ مدینہ کے لیے بھی سُوال کرنے کی اِجازت نہیں ۔ ایسوں کے حالات سے واقِف ہو کر انہیں دینا بھی ناجائز و گناہ ہے ۔ چنانچہ اعلیٰ حضرت ، اِمامِ اَہلسنَّت مولانا شاہ امام احمد رَضا خان عَلَیْہِ رَحْمَۃُ الرَّحْمٰن کے فَرمان کا خُلاصہ ہے : جن کو سُوال کرنا حَلال نہیں ایسوں کے سُوال پر ان کا حال جان کر ان کے سُوال پر کچھ دینا کوئی کارِثواب نہیں بلکہ ناجائز و گناہ اور گناہ میں مدد کرنا ہے ۔ (1)
كوئی پیشکش کرے تب بھی شکریہ کے ساتھ منع کر دیجیے
مَدَنی قافلے میں سفر یا سُنَّتوں بھرے اِجتماع میں شِرکت کی خاطِر سُوال کرنا تو دُور کی بات اگر کوئی خود پیشکش کرے تب بھی آپ شکریہ کے ساتھ اُسے منع کر دیجیے اور اپنی جیب سے خرچ کر کے مَدَنی قافلوں میں سفر اور سُنَّتوں بھرے اِجتماعات میں شِرکت کیجیے تاکہ راہِ خدا میں سفر کرنے کے ثواب کے ساتھ ساتھ مال خَرچ کرنے کا بھی ثواب ملے ۔ راہِ خدا میں مال خَرچ کرنے کے بہت فَضائل ہیں ۔ فَرمان مصطفے ٰ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلہٖ وَسَلَّم ہے : جس نے اللہ پاک کی راہ میں مال بھیجا حالانکہ خود اپنے گھر میں ہی ٹھہرا رہا اُس کے لیے ہر دِرہم کے بَدلے سات سو دَراہم ہیں اور جس نے بذاتِ خود اللہ پاک کی راہ میں جہاد کیا اور اپنا مال اس
________________________________
1 - فتاویٰ رضویہ ، ۱۰ / ۳۰۳ ملخصاً رضا فاؤنڈیشن مرکز الاولیا لاہور