گزاروں کو نَذرانہ دینے کی غَرض سے جمع کر رکھے تھے ۔ میں نے لوگوں سے اس دَرویش کے متعلق پوچھا تو پتا چلا کہ وہ عِلمِ تَصَوُّف کا بہت بڑا عالِم اور یہاں کے تمام زاہدوں پر فوقیت رکھتا ہے ۔ میں نے سوچا کہ یہ تمام دِینار اسے دے دینے چاہیں کیونکہ اس سے بہتر کوئی نہیں جس پر مال خرچ کیا جائے ۔ چنانچہ صبح ہوتے ہی میں چند رُفَقا کے ساتھ اس دَرویش کے پاس گیا ۔ وہ بڑی خَندہ پیشانی سے مِلا ، میں بھی خُوش رُوئی سے پیش آیا ۔ میں نے کہا : کل میں نے آپ کو نمک کے ساتھ جَو کی روٹی کھاتے دیکھا ۔ میرا خیال ہے کہ تم دِن کو روزہ رکھتے ہو اور اِفطاری میں صِرف نمک کے ساتھ جَو کی روٹی کھاتے ہو ۔ میں چاہتا ہوں کہ تمہیں کچھ ہَدیہ پیش کروں ۔ یہ کہہ کر میں نے دِیناروں کی تھیلی اس کی طرف بڑھاتے ہوئے کہا : یہ ایک ہزار دِینار ہیں ۔ یہ سُن کر اس دَرویش نے میری طرف بڑی غضب ناک نظروں سے دیکھا اور کہا : اپنے دِینار واپس لے جاؤ! بے شک یہ تو اس کی جزا ہے جس نے اپنا راز لوگوں پر ظاہِر کر دیا ہو ۔ (1)
اِجتماع کے لیے سُوال کرنا کیسا؟
سُوال : مَدَنی قافلے میں سفر یا سُنَّتوں بھرے اِجتماع میں شِرکت کی خاطِر اپنی ذات کے لیے کَرائے اور دِیگر اَخراجات وغیرہ کا سُوال کرنا کیسا ہے ؟
جواب : مَدَنی قافلے میں سفرہو یا سُنَّتوں بھرے اِجتماع میں شِرکت اپنی ذات کے لیے
________________________________
1 - عیون الحکایات ، الحکاية التسعون بعد المائتین ، ص۲۶۴ دار الکتب العلمية بیروت