سے سُوال کرنے سے بچنے کا حکم دیا گیا ہے ۔ چنانچہ اِرشادِ رَبّ العباد ہے :
وَ تَزَوَّدُوْا فَاِنَّ خَیْرَ الزَّادِ التَّقْوٰى٘ (پ۲ ، البقرة : ۱۹۷) ترجَمۂ کنز الایمان : اور توشہ ساتھ لو کہ سب سے بہتر توشہ پرہیزگاری ہے ۔
اِس آیتِ کریمہ کے تحت صَدرُ الاَفاضِل حضرتِ علّامہ مولانا سَیِّد محمد نعیم الدِّین مُراد آبادی عَلَیْہِ رَحْمَۃُ اللّٰہِ الْہَادِی فرماتے ہیں : ”بعض یمنی حَج کے لئے بے سامانی کے ساتھ رَوانہ ہوتے تھے اور اپنے آپ کو مُتَوَکِّل کہتے تھے اور مکّۂ مُکرَّمہ میں پَہُنچ کر سُوال شروع کر دیتے اور کبھی غَصَب و خِیانت کے مُرتکب ہوتے ۔ ان کے بارے میں آیتِ مُقَدَّسَہ نازِل ہوئی اور حکم ہوا کہ توشہ لے کر چلو ، اَوروں پر بار نہ ڈالو ، سُوال نہ کرو کہ بہتر توشہ پرہیز گاری ہے ۔ “
نمک کے ساتھ جَو کی روٹی کھانا تو منظور لیکن...!
میٹھے میٹھے اسلامی بھائیو!ہمارے بزرگانِ دِینرَحِمَہُمُ اللّٰہُ الْمُبِیْن میں ایسی خود داری ہوا کرتی تھی کہ نمک کے ساتھ جَو کی روٹی کھانا تو منظور کر لیتے لیکن کسی کے سامنے دَستِ سُوال دَراز نہ کرتے ۔ اگر کوئی بِن مانگے دیتا تب بھی قبول نہ فرماتے ۔ چنانچہ حضرتِ سَیِّدُنا اَحمد بِن محمد بِن بزار عَلَیْہِ رَحْمَۃُ اللّٰہ ِالْغَفَّار فرماتے ہیں : ایک مَرتبہ عاشورہ کی رات میں ایک مُسافر خانے میں داخِل ہوا تو وہاں ایک دَرویش جَو کی روٹی نمک کے ساتھ کھا رہا تھا ۔ اس کی یہ حالت دیکھ کر میں تڑپ اُٹھا ۔ میرے پاس اُس وقت ایک ہزار دِینار تھے جو میں نے عبادت