ہم دونوں میں سے ایک اَمیر ہو گا اور دوسرا ماتحت ۔ میں نے کہا : آپ اَمیر ہوں گے ۔ انہوں نے فرمایا : پھر تم پر میری اِطاعت لازِم ہو گی ۔ میں نے کہا : جی ہاں ۔ چنانچہ انہوں نے ایک تھیلا لیا اور میرا زادِ راہ اس میں ڈال کر اپنی پیٹھ پر اُٹھا لیا ۔ جب میں نے یہ دیکھا تو کہا : آپ تھیلا مجھے دے دیجیے ۔ انہوں نے فرمایا : کیا تم نے مجھے اَمیرنہیں بنایا؟ تم پر میری اِطاعت لازِم ہے ۔ ایک رات بارش نے ہمیں آ لیا تو آپ صبح تک میرے سِرہانے کھڑے ہو کر چادر کے ذَریعے مجھے بارش سے بچاتے رہے حالانکہ میں بیٹھا ہوا تھا اور میں اپنے نفس سے کہہ رہا تھا : کاش میں مَر جاتا اور آپ سے یہ نہ کہتا کہ آپ اَمیر ہیں ۔ (1)
دَورانِ سفر دوسروں سے سُوال کرنا
سُوال : دَورانِ سفر دوسروں سے سُوال کرنا کیسا ؟
جواب : دوسروں سے سُوال کرنا تو ویسے ہی ایک معیوب فعل ہے اور دَورانِ سفر تو اِس کی کراہیت میں مَزید اِضافہ ہو جائے گا کیونکہ سفر میں ہر شخص کے پاس عموماً بقدرِ ضَرورت ہی توشہ ہوتا ہے اب اگر دوسرا بھی اس سے سُوال کرے گا تو وہ دینے والا خود آزمائِش میں آ جائے گا لہٰذا دوسروں سے سُوال کرنے کے بجائے اپنی ضَرورت کی چیزیں مثلاً پانی کا گیلن ، مِٹی کے بَرتن اور چٹائی وغیرہ ساتھ رکھنی چاہییں ۔ قرآنِ کریم میں دَورانِ سفر اپنا توشہ ساتھ رکھنے اور دوسروں
________________________________
1 - احیاء العلوم ، کتاب آداب الألفة...الخ ، الباب الثانی فی حقوق الأخوة والصحبة ، ۲ / ۲۲۸دار صادر بیروت