سُوکھی ہوئی گھاس کھا کر بھی وقت گزارا ہے ۔ ایک دِن میں عام طور پر صِرف دو یا تین بادام کھایا کرتے تھے ۔ ایک مرتبہ بیمار پڑ گئے اَطِبّا نے بتلایا کہ سُوکھی روٹی کھا کھا کر اِن کی اَنتڑیاں سُوکھ چکی ہیں ۔ اس وقت اِمام بخاری عَلَیْہِ رَحْمَۃُ اللّٰہ ِالْبَارِی نے بتلایا کہ وہ چالیس سال سے خشک روٹی کھا رہے ہیں اور اس طویل عرصہ میں سالن کو بالکل ہاتھ نہیں لگایا ۔ (1)
فقیہِ مِلَّت مُفتی جلالُ الدِّین اَمجدی عَلَیْہِ رَحْمَۃُ اللّٰہِ الْقَوِی اپنے زمانۂ طالِبِ علمی کی آب بیتی یوں بیان فرماتے ہیں : دِن بھر کام کرتا رہا جس سے پچیس تیس روپیہ ماہانہ اپنے والدین کی خِدمت کرتا اور اپنے کھانے پینے کا اِنتظام کرتا اور بعدِ مغرب اپنے دَس ساتھیوں کے ہمراہ تقریباً بارہ بجے تک حضرتِ علّامہ اَرشدُ القادری صاحب قبلہ دَامَتْ بَرَکاتُہُمُ الْقُدْسِیَہ سے مدرسہ شمسُ العلوم میں تعلیم حاصِل کرتا ۔ اِس طرح ناگپور میں میری تعلیم کا سِلسلہ آخر تک جاری رہا ۔ (2)
میٹھے میٹھے اسلامی بھائیو!دیکھا آپ نے کہ ہمارے اَ کابرین و بزرگانِ دِین رَحِمَہُمُ اللّٰہُ الْمُبِیْن طالِبِ علمی کے دور میں پیش آنے والی تکالیف پر صبر کرتے ، بھوک اور مشقتیں بَرداشت کرتے مگر کسی پر بوجھ بننا گوارا نہ کرتے ، یہی وجہ تھی کہ انہیں عِلمِ دِین کی خوب بَرکتیں نصیب ہوتیں اور ان کے حافظےبھی
________________________________
1 - تذکرۃ المحدثین ، ص۱۶۹ فرید بُک سٹال مَرکز الاولیا لاہور
2 - عجائب الفقہ ، ص۹ مکتبہ اسلامیہ مرکز الاولیا لاہور