الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کی عمر ساٹھ سال تھی ) ، آپ نے (یعنی آدم عَلَیْہِ السَّلَام نے اللہ پاک کی بارگاہ میں ) عرض کیا کہ میری عمر نو سو ساٹھ سال کر دے اور داؤد عَلَیْہِ السَّلَام کی عمر پورے سو سال ۔ یہ دُعا رب نے قبول فرما لی ۔ معلوم ہوا کہ نبی کی دُعا سے عمریں گھٹ بڑھ جاتی ہیں ، ان کی شان تو بہت اَرفع ہے شیطان کی دُعا سے اس کی عمر بڑھ گئی کہ اُس نے عرض کیا تھا : (رَبِّ فَاَنْظِرْنِیْۤ اِلٰى یَوْمِ یُبْعَثُوْنَ(۷۹))(پ۲۳ ، صٓ : ۷۹ ) (ترجمۂ کنز الایمان : اے میرے رب ایسا ہے تو مجھے مہلت دے اس دن تک کہ اٹھائے جائیں ۔ ) رب تعالیٰ نے اس کی دعا قبول کرتے ہوئے فرمایا : (فَاِنَّكَ مِنَ الْمُنْظَرِیْنَۙ(۸۰)) (پ۲۳ ، ص : ۸۰ ) (ترجمۂ کنز الایمان : تو مہلت والوں میں ہے ۔ ) (فَاِنَّكَ)کی” ف“ سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ زیادتی عمر اس کی دُعا سے ہوئی ۔رہی وہ آیتِ کریمہ : (اِذَا جَآءَ اَجَلُهُمْ فَلَا یَسْتَاْخِرُوْنَ سَاعَةً وَّ لَا یَسْتَقْدِمُوْنَ(۴۹) ) (پ۱۱ ، یونس : ۴۹ ) (ترجمۂ کنز الایمان : جب ان کا وعدہ آئے گا تو ایک گھڑی نہ پیچھے ہٹیں نہ آگے بڑھیں ۔ ) وہ اس حدیث کے خِلاف نہیں کیونکہ آیت میں تَقدیرِ مُبرم یعنی علمِ اِلٰہی کا ذِکر ہے اور یہاں تَقدیرِمُعَلَّق کی تحریر کا ذِکر یا آیت کا مطلب یہ ہے کہ کوئی شخص اپنے اِختیار سے اپنی عمر کم و بیش نہیں کر سکتا اور حدیث کا مطلب یہ ہے کہ بندوں کی دُعا سے عمریں رب گھٹا بڑھا دیتا ہے ۔آخر عیسیٰ عَلَیْہِ السَّلَام مُردوں کو زندہ فرماتے تھے انہیں آپ کی دُعا سے نئی عمریں مل جاتی