عطّار قادری رضوی ضیائی دَامَتْ بَرَکاتُہُمُ الْعَالِیَہ تَرغیب و تحریص کے طور پر اپنا ایک واقعہ بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں : )ایک مرتبہ میرا ایک پڑوسی کسی ناکردہ خَطا کی بنا پر صرف اور صرف غَلَط فہمی کے سبب مجھ سے سخت ناراض ہو گیا اور بپھر کر مجھے ڈھونڈتا ہوا شہید مسجد کھارادر پہنچا ۔ میں وہاں موجود نہ تھا بلکہ کہیں بیان کرنے گیا ہوا تھا ، لوگوں کے بقول اُس شخص نے مسجد میں نمازیوں کے سامنے میرے بارے میں سخت بَرہمی کا اِظہار کیا اور کافی شور مچایا اور اِعلان کیا کہ میں الیاس قادری کے کارناموں کا بورڈ چڑھاؤں گا ۔ ان دنوں بھی میرے اِردگرد اسلامی بھائیوں کا ایک حلقہ تھا لیکن پھر بھی میں نے کوئی اِنتقامی کاروائی نہ کی نیز ہمّت بھی نہ ہاری اور اپنے مَدَنی کاموں سے ذَرّہ برابر پیچھے بھی نہ ہٹا ۔ خدا کا کرنا ایسا ہوا کہ چند روز کے بعد جب میں اپنے گھر کی طرف آ رہا تھا تو وُہی شخص چند لوگوں کے ہمراہ محلے میں کھڑا تھا ، میں نے ہمّت کی اور اُس کی طرف آگے بڑھتے ہوئے اُسے سلام کیا ، تو اُس نے باقاعدہ منہ پھیر لیا ، میں نے مزید آگے بڑھ کر اُسے گلے لگا لیا اور اُس کا نام لے کر مَحَبَّت بھرے لہجے میں کہا : بَہُت ناراض ہو گئے ہو!میرے یہ کہتے ہی اُس کا غُصّہ ختم ہو گیا ، بے ساختہ اُس کی زَبان سے نکلا : نابھئی نا! الیاس بھائی کوئی ناراضی نہیں ! اور پھر میرا ہاتھ پکڑ کر بولا : چلو گھر چلتے ہیں آپ کو میرے ساتھ ٹھنڈی بوتل پینی ہو گی ۔ اَلْحَمْدُ لِلّٰہ عَزَّ وَجَلَّ اس نے اپنے گھر لے جا کر میری خیرخواہی کی ۔