Brailvi Books

مدنی مذاکرہ قسط 33: بُرائی کا بدلہ اچھائی سے دیجئے
12 - 27
ذَلیل و رُسوا کرنے کے بجائے حکمتِ عملی اور نرمی کے ساتھ اسے اس کے عیب یا  بُرائی  پر مُطلع کرنا چاہیے تاکہ وہ اپنی اِصلاح کر لے اگر پھر بھی اس کی اِصلاح نہ ہو تو اس کے لیے دُعائے خیر کیجیے ۔  حدیثِ پاک میں ہے : اِنَّ اَحَدَكُمْ مِرْآةُ اَخِيْهِ  فَاِنْ رَاٰى بِهٖ اَذًى فَلْيُمِطْهُ عَنْهُ یعنی  تم میں سے ہر ایک اپنے بھائی کا آئینہ ہے ، اگر اس میں بُرائی دیکھے تو اس سے دَفع کر دے ۔ ( 1 ) 
اِس حدیثِ پاک کے تحت مُفَسِّرِ شَہِیر ، حکیمُ الاُمَّت حضرتِ مفتی احمد یار خان عَلَیْہِ رَحْمَۃُ الْحَنَّان فرماتے ہیں : جیسے آئینہ چہرے کے سارے عیب و خوبیاں ظاہر کر دیتا ہے ایسے ہی مسلمان اپنے مسلمان بھائی کے عیب پر اسے مُطلع کرتا رہے تاکہ وہ اپنی اِصلاح کرے ۔ غرض یہ کہ رُسوائی کرنا ممنوع ہے اِصلاح کرنا ثواب ، رُسوائی کی ممانعت ہے اور اِصلاح کا حکم ہے ۔  ( اگر اپنے مسلمان بھائی میں کوئی  بُرائی دیکھیں تو )اسے خبر دے کر یا اس کے لیے دُعائے خیر کر کے ( اس سے وہ بُرائی دَفع کر دیں ۔  )حضرت عمر رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ فرماتے تھے کہ اللہ عَزَّوَجَلَّ اس پر رحم کرے جو مجھے میرے عُیُوب پر مُطلع کرے ۔ ( 2 )عُیُوب فرما کر بتایا کہ ہمارا نفس عیبوں کا سرچشمہ ہے یا یہ مطلب ہے کہ مسلمانوں کو چاہیے کہ ان مومنوں کے پاس بیٹھا کریں جن کے ذَریعے  انہیں اپنے عُیُوب پر اِطلاع ہو ۔ 



________________________________
1 -    ترمذی ، کتاب البر والصلة ، باب  ما جاء فی  شفقة المسلم علی المسلم ، ۳ /  ۳۷۳ ، حدیث : ۱۹۳۶ 
2 -    احیاء العلوم ، کتاب ریاضة  النفس و تھذیب الاخلاق ، ۳ / ۷۹  دار صادر بیروت