اچھے سلوک کی نیت کی جا سکتی ہے مثلاً اپنے ماں باپ کا ہاتھ چوموں گا، ماں باپ کو راضى کروں گا اور راضى رکھوں گا تو اِس طرح کى اچھى اچھى نىتىں کرتے جائىں اِنْ شَآءَ اللّٰہ عَزَّوَجَلَّ ثواب ملے گا ۔ مزید معلومات کے لیے رِسالہ ”ثواب بڑھانے کے نسخے“ کا مُطالعہ کیجیے ۔
خلافِ شرع کاموں میں اِطاعت نہیں
سُوال : والدین خلافِ شرع کام کا حکم دیں تو کیا پھر بھی ان کی اِطاعت کرنی ہو گی؟
جواب : والدین کی اِطاعت وفرمانبرداری شرىعت کے دائرے مىں رہتے ہوئے ہى کی جا سکتی ہے ۔ خلافِ شرع باتوں میں ان کا کہنا نہیں مانا جائے گا مثلاً اگر کسى کا باپ کافر اور اندھا ہے اور وہ کہتا ہے کہ مجھے بُت خانے لے جاؤ ۔ تو بیٹے کو حکم ہے کہ نہ لے جائے کہ یہاں نہ لے جانا باپ کى نافرمانى میں نہىں آئے گا ۔ کفر کرنے کے لىے جانے میں مدد نہىں کرىں گے اس لیے کہ قرآنِ پاک میں ہے :) وَ لَا تَعَاوَنُوْا عَلَى الْاِثْمِ وَ الْعُدْوَانِ۪-((پ۶، المائدة : ۲) ترجمهٔ كنزالايمان : ”گناہ اور بُرائى کے کام پر اىک دوسرے کى مدد مت کرو ۔ “البتہ اگر کافر باپ کہے کہ بُت خانے سے واپس مجھے گھر لے آنا تو اب لانا ہو گا بلکہ کوشش کرے کہ جلد لائے مثلاً اگر وہ کہے کہ مجھے دس بجے لانا تو بیٹا کہے کہ مىں ساڑھے نو بجے لے آؤں گا ۔ یوں اگر آدھا گھنٹہ کفر خانے سے بچ گىا تو اچھا ہے کىونکہ غىرمُسلِم رہے گا تو ہمىشہ جہنم مىں لىکن جتنے گناہ بھى کرتا ہے تو اس کے حِساب سے مزىد اس کو سزائیں اور