مبلغ کا مقصد عوام کو اپنی بات سمجھانا ہونا چاہیے
(نگرانِ شوریٰ نے فرمایا : )کامیاب اُستاد وہ ہوتا ہے جو اپنے طَلَبہ کی ذہنی صَلاحیتوں کے مُطابق سبق پڑھائے ۔ اگر اس کے پاس 10سال کا طالبِ عِلم پڑھنے آئے تو یہ اس اَنداز میں پڑھائے کہ وہ اس کی بات بخوبی سمجھ سکے اور اگر کوئی 20سال کا طالبِ عِلم ہو تو اس کو بھی بات سمجھنے میں بالکل دُشواری نہ ہو۔ کیونکہ اُستاد کا اصل مقصد طَلَبہ کو سبق سمجھانا ہوتا ہے محض مسلسل بولے چلے جانا جس سے طَلَبہ کو کچھ سمجھ ہی نہ آئے فائدے مند نہیں۔ مبلغ کا مقصد بھی یہی ہونا چاہیے کہ میں نے عوام کو بات سمجھانی ہے ۔ بیرون ممالک کے اسلامی بھائی جنہیں اُردو کم آتی ہے وہ بعض اوقات کلام کے سیاق و سباق سے ہماری بات سمجھنے کی کوشش کرتے ہیں ، اَلفاظ سے سمجھنا ان کے لیے مشکل ہوتا ہے مثلاً ہم یہ جملہ کہیں : ”ثواب کاتَرَتُّب نہیں ہوگا“ تو یہ ”تَرَتُّب“ان کی سمجھ میں نہیں آئے گا کہ یہ کیا ہوتا ہے ۔ اللہ پاک ہمیں اپنی گفتگو میں آسان اَلفاظ اِستعمال کرنے کی توفیق عطا فرمائے ۔ اٰمِیْن بِجَاہِ النَّبِیِّ الْاَمِیْن صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ واٰلہٖ وَسَلَّم
والد کی بَرسی پر نیا لباس پہننا کیسا؟
سُوال : اگر کسی کے والد صاحب کا اِنتقال 12رَبیع الاول کو ہوا ہوتو کیا ان کی بَرسی پر نئے کپڑے پہن سکتے ہیں؟ (سوشل میڈیا کا سُوال)
جواب : شَرعاً بَرسی والے دِن نئے کپڑے پہننے میں کوئی حرج نہیں ہے ۔ جَشنِ وِلادت