مرىض بڑى مشکل سے گھر سے نکلا ہے اور اِس سے چلا بھی نہىں جا رہا اور نہ ہی دوڑ کر کہ لوگ سمجھیں اس کا کوئی مال لے کر بھاگا ہے جسے یہ پکڑنے جا رہا ہے بلکہ ایسے دَرمیانے اَنداز سے چلیں کہ لوگ نہ تو ہنسیں اور نہ ہی انہیں تشویش ہو کہ پتا نہیں کیا ہو گیا ہے یہ کیوں بھاگے چلا جا رہا ہے ۔ ہاں ! اگر جماعت جا رہی ہے تو پھر ایسی رفتار سے چلیں کہ اُسے دوڑنا بھی نہ کہا جائے اور نہ ایک دَم تیز قدم رکھنا ہو کہ مسجد پہنچ کر سانس پھول جائے اور نماز میں دِل نہ لگے ۔
اَحادیثِ مُبارَکہ میں اگرچہ چھوٹے چھوٹے قدم چلنے کا ذِکر نماز کے لیے مسجد جانے کے بارے میں ہے مگر نماز کے عِلاوہ دِیگر نیک کاموں مثلاً سُنَّتوں بھرے اِجتماعات میں شِرکت ، کسی عالِمِ دِین کا وَعظ اور قرآنِ پاک کی تفسیر سُننے کے لیے جب بندہ چلتا ہے تواُس کے بھی ہر قدم چلنے پر ثواب لکھا جاتا ہے ۔ یوں اپنے آپ کو نیکیوں کی حرص دِلائیں اور اپنا یہ ذہن بنائیں کہ مجھے تو اتنا سارا ثواب مِل رہا ہے میں کیوں سُستی کروں؟ اِس طرح زبردستی اپنے نَفس کو اِس طرف مائِل کریں کہ مجھے مَدَنی کام کرنا ہے ۔
نیکیوں میں دِل نہ لگے تو کیا کریں؟
دیکھیے ! مَریض کو غِذا اچھى نہىں لگتى لىکن زندہ رہنے کے لىے وہ غِذا کھاتا ہے ۔ اِسى طرح ہم باطنی مَرىض ہىں ہمارے نَفس کو نىکىاں اچھى نہىں لگ رہى ہوتیں مگر ہمیں زبردستى اس سے نىکىاں کروانى ہىں۔ مَرىض جب اچھا ہو جاتا