کہ حضرتِ سَیِّدُنا امام ابو یوسف رَحْمَۃُ اللّٰہ ِتَعَالٰی عَلَیْہ کے صاحبزادے کا جب اِنتقال ہوا تو اس کی تَدفین کی ذِمَّہ داری پڑوسیوں اور رِشتہ داروں کے حوالے کر کے خود امامِ اعظم ابو حنیفہ رَحْمَۃُ اللّٰہ ِتَعَالٰی عَلَیْہ کی مجلسِ علم میں حاضِر ہو گئے ، اس ڈر سے کہ کہیں استادِ گرامی سے کوئی علمی بات سیکھنے سے رہ گئی تو عمر بھر اس کا اَفسوس دامن گیر رہے گا ۔ (1)
میٹھے میٹھے اسلامی بھائیو! دیکھا آپ نے کہ ہمارے بزرگانِ دِین رَحِمَہُمُ اللّٰہِ الْمُبِیْن کو علمِ دِین سیکھنے کا کس قدر شوق ہوتا اور وہ علمِ دِین کی مجلس میں حاضِر ہونے کا کیسا اِہتمام فرماتے ۔ ہم تو شاید ایسا نہ کر پائیں بلکہ اگر کوئی جذبات میں آ کر ایسا کر بھی لے تو لوگ باتیں بنائیں گے تو کم از کم اِجتماع کے دَوران اِدھر اُدھر گھومنے پھرنے کے بجائے اوّل تا آخر سُنَّتوں بھرے اِجتماع میں شِرکت کر کے ڈھیروں بَرکتیں حاصِل کریں ۔ یاد رکھیے ! موقع ملنے کے باوجود اپنے آپ کو علمِ دِین سیکھنے سے محروم رکھنا بَروزِ قیامت حسرت و ندامت کا سبب بن سکتا ہے ۔ چنانچہ خَلق کے رہبر، شافعِ محشر صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلہٖ وَسَلَّمنے اِرشاد فرمایا : سب سے زیادہ حسرت قیامت کے دِن اُس شخص کو ہو گی جسے دُنیا میں طَلبِ علم کا موقع مِلا مگر اس نے طَلب نہیں کیا ۔ (2)
________________________________
1 - مناقب امام اعظم للکردری، الجزء : ۲، ص۲۱۵ کوئٹه
2 - تاریخ ابن عساکر، محمد بن أحمد بن محمد بن جعفر، ۵۱ / ۱۳۸ دار الفكر بيروت