نہیں کہ مرید اُخروی نجات کے حصول کے لیے اپنے پیر کی رضا چاہے اور اس کے لیے کوشش کرے۔مگر اس پر فتن دور میں ایک ہستی ایسی بھی ہے جس کا انداز باقی جہاں سے نرالا ہے اور وہ ہستی ہیں پندرھویں صدی کی عظیم علمی و روحانی شخصیت، شیخ طریقت، امیر اہلسنت، بانیٔ دعوتِ اسلامی حضرت علامہ مولانا ابو بلال محمد الیاس عطّار قادری رضوی ضیائی دَامَتْ بَرَکَاتُہُمُ الْعَالِیَہ ۔آپ کی حیاتِ طیبہ کا مشاہدہ کرنے والے اسلامی بھائی اس بات سے بخوبی آگاہ ہیں کہ آپ کا کسی مرید سے ناراض ہونا تو درکنار،اگر کسی مرید کی اصلاح فرماتے ہوئے یا کسی بھی وجہ سے یہ خیال بھی آپ کے دل میں پیدا ہو جائے کہ فلاں اسلامی بھائی کی میری وجہ سے دل آزاری ہوئی ہے تو اس سے معافی مانگنے میں ذرہ برابر دیر نہیں فرماتے۔ چنانچہ،
۲۲رَبِیع النور شریف۱۴۳۱ھ كو امیرِ اہلسنّت دَامَتْ بَرَکَاتُہُمُ الْعَالِیَہ کی بارگاہ میں کچھ ذمہ دار انِ جامعات المدینہ حاضرتھے ،ایک مَدَنی اسلامی بھائی نے عرض کی: ہمارے حیدرآباد کے طلبہ اپنے اپنے کر ائے پر باب المدینہ کے تربیتی اجتماع میں آئے ہیں۔ اس پر امیرِ اہلسنّت دَامَتْ بَرَکَاتُہُمُ الْعَالِیَہ نے تحسین کے کلِمات ادا کرنے کے بعدفرمایاکہ آپ کا شہر قریب ہے کرایہ کم لگتا ہے، پنجاب والے بھی اپنے اپنے کرائے پر آئے ہیں ان معنوں میں وہ زیادہ لائقِ تحسین ہیں ۔کچھ دیر