یا قصور بھی معلوم نہ ہوتب بھی اس پر لازم ہے کہ فوراً ہی اپنے مرشِد کو راضی کرنے کی کوشش میں لگ جائے۔ کیونکہ جو مرید فوراً اپنے مرشِد کو راضی کرنے کی کوشش نہ کرے تو یہ اس کی ناکامی کی دلیل و علامت ہے۔مزید ارشاد فرماتے ہیں:میں نے اپنے پانچ سالہ بیٹے کو یہ کہتے سنا کہ اباجان!سچا مرید وہ ہے کہ جب مرشِد اس پر ناراض ہوجائے تو اس کی روح نکلنے کے قریب آجائے اور وہ نہ کھائے نہ پئے نہ ہنسے او رنہ سوئے، یہاں تک کہ اس کے پیرو مرشِد اس سے راضی ہوجائیں۔ (الانوار القدسیہ فی معرفۃ قواعد الصوفیہ، الجزء الثانی، ص ۴۷)
دُعا منگیا کرو سنگیو!
کِتے مرشِد نہ رُس جاوے
جنہاں دے پیر رُس جاندے
او جیندے جی مرے رہندے
مریدوں کو راضی کرنے والا پیر
میٹھے میٹھے اسلامی بھائیو! افسوس! صد افسوس!دیگر اعمال و عقائد کی طرح ہم طریقت کے میدان میں بھی کمزور ہوتے جا رہے ہیں۔ آج کے دور میں پہلے جیسے پیر کامل کہیں نظر آتے ہیں نہ مرید کامل۔ اگر کہیں پیر کامل ہے تو مرید کامل نہیں اور اگر مرید کامل ہے تو پیر کامل اور جامع شرائط