بِالآخِر اُس کی جَھونپڑی تک پہنچ ہی گیا۔ جب اند ر داخِل ہوا تو دیکھاکہ ہر طر ف پُرانے چِیتھڑے بکھرے پڑے ہیں، ایک طرف چند ٹُوٹے پُھوٹے بر تن رکھے ہیں، اَلغَرَ ض دَر و دِیوار غُربت واِفلاس کے افسانے سُنا رہے تھے۔ ایک طر ف وہ ایک ٹُو ٹی ہوئی چار پائی پر لیٹا کَراہ رہا تھا، وہ سخت بیمار تھا اور ایسا لگتا تھا کہ اب جانْبَر(جاں۔بَر) نہ ہوسکے گا۔ میں سلام کر کے اُس کی چارپائی کے پاس کھڑا ہوگیا۔ اُس نے آنکھیں کھولیں اور میری طر ف دیکھ کر اُس کی آنکھوں میں ہلکی سی چمک آئی، اپنے پاس بیٹھنے کا اشارہ کیا، میں بیٹھ گیا۔ بَمُشکِل تمام اُس نے لَب کھولے اور مَدہم آواز میں بولا: بھائی! مجھے مُعاف کردو کہ میں نے تم سے بَہُت دھوکہ کیا ہے۔ میں نے حیرت سے کہا: وہ کیا؟ کہنے لگا: میں نے تم کو اپنے دُکھ دَرد کے جتنے بھی اَفسانے سُنائے وہ سب کے سب مَن گھڑت تھے اور اِسی طر ح گھڑھی ہوئی داستانیں سُنا سُنا کر میں لوگوں سے بھیک مانگتا رہا ہوں۔ اَب چُونکہ بچنے کی بَظاہِر کوئی اُمِّید نظر نہیں آتی اِس لیے تمہارے سامنے حقائِق کا