ابن عُلَیَّہ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ کو یہ رُقعہ ملا تو آپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ مجلسِ قضاء سے اُٹھ کرہارون الرشید کے پاس آئے او رکہا: ''اے امیر المؤمنین! میرے بڑھاپے پر رحم فرمائیں ، اب میں عہدۂ قضاء کی ذمہ داری نہیں نبھا سکتا ، برائے کرم مجھ سے یہ ذمہ داری واپس لے لیں ۔'' خلیفہ ہارون الرشید نے کہا :'' شاید اس دیوانے (حضرت سیِّدُنا عبداللہ بن مُبَارَک رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ ) نے تجھے اس بات پر اُبھاراہے اور تیرے دل میں کھلبلی مچادی ہے ۔'' آپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ نے فرمایا :'' خدا عَزَّوَجَلَّ کی قسم ! انہوں نے مجھے بچا لیا ، انہوں نے مجھے بچالیا ،اللہ عَزَّوَجَلَّ آپ کو بھی ہر مصیبت سے نجات عطا فرمائے۔ آپ مجھے اس عہدے سے بَر طرف کردیں۔'' چنانچہ خلیفہ ہارون الرشید علیہ رحمۃ اللہ المجید نے آپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ کا اِسْتِعْفٰی قبول کرلیا۔جب حضرت سیِّدُنا عبداللہ بن مُبَارَک رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ کو اس واقعہ کا علم ہو ا تو آپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ نے ابن عُلَیَّہ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ کووہ رقم بھجوادی جو ہر سال بھجوایا کرتے تھے ، ابن عُلَیَّہ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ کا نام اسماعیل بن ابراہیم بن اَسَدِی تھا، آپ بصرہ کے رہنے والے تھے۔
ایک روایت یہ ہے کہ شریک بن عبداللہ نَخَعِی علیہ رحمۃ اللہ القوی نے حضرت سیِّدُنا عبداللہ بن مُبَارَک رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ سے مشورہ طلب کیا کہ کیا میں قضاء کا عہد ہ قبول کرلوں ؟ آپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ نے سختی سے منع فرمادیا ،جب حضرت سیِّدُنا عبداللہ بن مُبَارَک رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ ان کے پاس سے واپس چلے گئے تو انہوں نے قاضی کا عہدہ قبول کرلیا اور آپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ کو خط لکھا کہ مجھے زبردستی قاضی بنایا گیا ہے ، شریک بن عبداللہ نَخَعِیّ علیہ رحمۃ اللہ القوی کا یہ خط پڑھ کر آپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ نے مذکورہ اشعار لکھ کر بھیجے۔
(اللہ عزوجل کی اُن پر رحمت ہو..اور.. اُن کے صدقے ہماری مغفرت ہو۔آمین بجاہ النبی الامین صلي اللہ عليہ وسلم)