Brailvi Books

اولاد کے حُقوق
28 - 32
کو تھوڑی ٹھیس بہت ہے، بلکہ ہنگاموں میں جانے کی مُطلَق بندش کرے (فنکشنوں میں جانے سے بالکل روک دے) گھر کو ان پر زِنداں (قید خانہ کی طرح) کر دے بالا خانوں ( چھتوں ) پر نہ رہنے دے ۔

(۷۷) گھر میں لباس وزیور سے آراستہ کرے کہ (نکاح کے) پیام ، رغبت کے ساتھ آئیں ۔

(۷۸) جب کفو ملے نکاح میں دیر نہ کرے(1) ۔

(۷۹) حتی الامکان بارہ برس کی عمر میں بیاہ دے۔

(۸۰) زِنہار ۔۔۔۔۔۔! زِنہار ۔۔۔۔۔۔! کسی فاسق فاجر خصوصاً بد مذہب کے نکاح میں نہ دے ۔

    یہ اَسّی حق ہیں کہ اس وقت کی نظر میں احادیث مرفوعہ سے خیال میں آئے ان میں اکثر تو مستحبات ہیں جن کے ترک پر اصلًا مُوَاخَذہ (گرفت) نہیں ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اور بعض (کے ترک) پر آخرت میں مطالبہ ہو ، مگر دنیا میں بیٹے کیلئے باپ پر گرفت وجبر نہیں ، نہ بیٹے کو جائز کہ باپ سے جِدا ل ونزاع (لڑائی جھگڑا ) کرے ، سوا چند حقوق کے کہ ان میں جبرِ حاکم وچارہ جوئی واعتراض کو دخل ہے ۔ (چند حقوق میں حاکم کو یہ حق حاصل ہے کہ بیٹے کو حق دینے دلوانے کے لئے باپ کو مجبور کرے، اور اسی طرح بیٹے کو باپ کے خلاف دعویٰ دائر کرنے اور اعتراض کرنے کا حق حاصل ہے، جو مندرجہ ذیل ہیں: )
 (1) کفو کے مسئلہ کی تفصیل بیان کرتے ہوئے صدر الشریعہ بدر الطریقہ مولانا مفتی محمد امجد علی اعظمی رحمۃ اللہ تعالی علیہ ''بہار شریعت'' میں فرماتے ہیں کہ : ''کفو کے یہ معنی ہیں کہ مرد عورت سے نسب وغیرہ میں اتنا کم نہ ہو کہ اس سے نکاح، عورت کے اولیاء کے لیے باعث ِننگ وعار ہو،کفاء ت صرف مرد کی جانب سے معتبر ہے عورت اگرچہ کم درجہ کی ہو اس کا اعتبار نہیں۔ ''

مزید ارشاد فرماتے ہیں کہ : ''کفاء ت میں چھ چیزوں کا اعتبار ہے: 

(۱) نسب (۲) اسلام (۳) حرفہ (پیشہ) (۴) حریت (آزاد ہونا) (۵) دیانت (۶) مال۔ ''

(''بہار شریعت''، جلددوم ، حصہ ۷، کفو کا بیان، ص۴۶)۔
Flag Counter