اولاد کے حُقوق |
بے فضیلتِ دینی ( دینی فضیلت کے بغیر) ترجیح نہ دے (1) ۔ (۳۵) سفر سے آئے تو ان کیلئے کچھ تحفہ ضرور لائے۔ (۳۶) بیمار ہوں تو علاج کرے۔ (۳۷) حتی الامکان سخت ومُوذِی (تکلیف دہ) علاج سے بچائے۔ (۳۸) زبان کھلتے ہی ''اللہ اللہ''، پھر پورا کلمہ : ''لا إلہ إلاّ اللہ'' بھر پور کلمہ طیبہ سکھائے۔ (۳۹) جب تمیز آئے ادب سکھائے، کھانے، پینے، ہنسنے، بولنے، اٹھنے، بیٹھنے، چلنے ، پھرنے، حیا، لحاظ، بزرگوں کی تعظیم، ماں باپ، استاد، اور دختر کو شوہر کے بھی اطاعت کے طُرُق وآداب (طور طریقے ) بتائے۔ (۴۰) قرآن مجید پڑھائے۔ (۴۱) (لڑکے کو ) استاد نیک، صالح ، متقی، صحیح العقیدہ، سِن رسیدہ کے سپرد کردے اور دختر کو نیک پارسا عورت سے پڑھوائے۔ (۴۲) بعد ختمِ قرآن ہمیشہ تلاوت کی تاکید رکھے۔
(1) ''فتاویٰ قاضی خان'' میں ہے حضرت امام ابو حنیفہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روايت ہے: ''أنّہ لا بأس بہ إذا کان التفضیل لزیادۃ فضل في الدین فإن کانا سواء یکرہ۔'' یعنی: '' اولاد میں سے کسی ایک کو زیادہ دینے میں کچھ حرج نہیں جبکہ اسے دوسری اولاد پر ترجیح و فضیلت دینا دینی فضل و شرف کی وجہ سے ہو،لیکن اگر سب برابر ہوں تو پھر ترجیح دینا مکروہ ہے۔'' (''الخانیۃ''، کتاب الہبۃ، ج۲، ص۲۹۰)۔ ''فتاویٰ عالمگیری'' میں ہے : ''لوکان الولد مشتغلا بالعلم لابالکسب فلا بأس بأن یفضلہ علی غیرہ کذا في''الملتقط''.'' ''اگربیٹا حصولِ علم میں مشغول ہو نہ کہ دنیوی کمائی میں تو ایسے بیٹے کو دوسری اولاد پر ترجیح دینے میں کوئی مضائقہ نہیں ''۔ (''الفتاوی الھندیۃ''، کتاب الہبۃ، الباب السادس، ج۴، ص۳۹۱)۔