Brailvi Books

اولاد کے حُقوق
14 - 32
اور اپنے ماں باپ کا، مگر ولد کا حق بھی والدپرعظیم رکھا ہے کہ ولد مُطْلَق اسلام، پھر خصوصِ جوار، پھر خصوصِ قرابت ، پھر خصوصِ عیال ، ان سب حقوق کا جامع ہو کر سب سے زیادہ خصوصیتِ خاصہ رکھتا ہے (۱) اور جس قدر خصوص بڑھتا جاتاہے حق اشدّ وآکد ( حق اُسی قدر مستحکم اور مضبوط تر ) ہوتا جاتا ہے ۔ علمائے کرام نے اپنی کتبِ جلیلہ (ذی شا ن کتابوں ) مثلِ : ''اِحیاء العلوم'' و''عین العلوم'' و''مدخل'' و''کیمیائے سعادت'' و''ذخیرۃ الملوک'' وغیرہا میں حقوقِ ولد سے نہایت مختصر طور پر کچھ تَعرُّض فرمایا ( یعنی: ان مذکورہ کتابوں میں علمائے کرام رحمہم اللہ تعالی نے بچوں کے حقوق پر بہت ہی کم کلام فرمایا) مگر میں صرف احادیث ِمرفوعہ حضور پر نور سید ِدو عالم صلی اللہ تعالی علیہ وسلم (2) ( حضور پُر نور سید ِدو عالم صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وسلم کی مرفوع حدیثوں)کی طرف توجہ کرتا ہوں۔

    فضلِ الہٰی جَل وعلاسے امید کہ فقیر کی یہ چند حرفی تحریر ایسی نافع وجامع واقع ہو (ایسی کامل اور فائدہ مند ثابت ہوگی) کہ اس کی نظیر کتب ِمُطَوَّلَہ (بڑی بڑی کتابوں) میں نہ ملے اس بارے میں جس قدر حدیثیں بحمداللہ تعالیٰ اس وقت میرے حافظہ ونظر میں ہیں انہیں بالتفصیل مع تخریجات لکھے (اگر ان احادیث کو تفصیل کے ساتھ بحوالہ لکھوں) تو ایک رسالہ ہوتا ہے اور غرض صرف اِفادہ احکام (جبکہ مقصود صرف احکامِ شرعیہ سے آگاہ کرنا ہے )، لہٰذا سرِدست فقط (اِس وقت صرف) وہ حقوق کہ یہ حدیثیں ارشاد فرما رہی ہیں کمالِ تلخیص واختصار کے ساتھ شمار کروں (یعنی مختصر طور پر حدیثوں کا مکمل خلاصہ پیش کرتا ہوں )
وباللہ التوفیق:
 (1) کہ بیٹا اور بیٹی عام طور پر مسلمان ہونے، پھر خاص پڑوسی ہونے،پھر قریبی رشتہ دار ہونے اور بالخصوص اُسی کے کنبہ میں ہونے کی و جہ سے باپ کی سب سے زیادہ خصوصی توجہ کے حقدار ہیں۔

(2) حدیث مرفوع: ھو ما ینتہي إلی النبي صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وصحبہ وسلم غایۃ الإسناد ۔

یعنی: '' وہ حدیث جس کی سند نبی کریم صلی اللہ تعالی علیہ وسلم تک پہنچتی ہو حدیث مرفوع کہلاتی ہے ۔'' (''نزھۃ النظر'' ، ص۱۰۴)۔
Flag Counter