Brailvi Books

اولاد کے حُقوق
13 - 32
بسم اللہ الرحمن الرحیم
رسالہ

مَشعلۃُ الاء رشاد في حقو قِ الأولاد
 (والدین پر اولاد کے حقوق کے بارے میں راہنمائی کی قندیل)
مسئلہ:
از سورون، ضلع ایٹہ محلہ ملک زاد گان، مُرْسِلُہ (سوال بھیجنے والے ) مرزا حامد حسن صاحب ۷جمادی الاولی ۱۳۱۰ھ ۔

    کیا فرماتے ہیں علمائے دین اِن مسائل میں کہ باپ پر بیٹے کا کس قدر حق ہے، اگر ہے اور وہ ادا نہ کرے تو اس کے واسطے حکمِ شرعی کیا ہے؟ مُفَصَّل طور پر اِرقام ( یعنی تفصیل کے ساتھ بیان) فرمائیے ۔
بَیِّنُوْا تُؤْجَرُوْا
( بیان فرمائیے ، اجر پائیے ) ۔
الجوابـــــــ
    اللہ عزّوجل نے اگرچہ والد کا حق وَلَد (1) پر نہایت اعظم بتایا ( یعنی باپ کا حق بچہ پربہت ہی عظیم بتایا) یہاں تک کہ اپنے حق کے برابر اس کا ذکر فرمایا کہ
( اَنِ اشْکُرْ لِیۡ وَ لِوٰلِدَیۡکَ ؕ)(2)
حق مان میرا
(1) جیساکہ سوال سے ظاہر ہے کہ سائل نے باپ پر بیٹے کے متعلق حقوق پوچھے جس کے جواب میں حقوق بیان کرتے ہوئے آپ رحمۃ اللہ علیہ نے لفظ '' وَلَد'' استعمال فرمایا جو بیٹا اور بیٹی دونوں ہی کو شامل ہے، والولد اسم یجمع الواحد والکثیر والذکر والأنثی کما في ''لسان العرب''، المجلد الثاني، ص ۴۳۵۳، اس لیے کہ بیٹے اور بیٹی کے حقوق تقریباً ایک ہی طرح کے ہیں سوائے چند کے ،جن کی مکمل تفصیل آپ رحمۃ اللہ علیہ نے بیان فرما دی۔ 

(2) پ۲۱، لقمٰن :۱۴
Flag Counter