گِرہیں لگاکر اونچی کرتا تھا ۔(الاصابہ ج۴ص۶۰۳ دارالکتب العلمیۃ بیروت)
شعَزّوَجَلَّ کی اُن پَر رَحمت ہو اور ان کے صد قے ہماری مغفِرت ہو
ٰٰامین بِجاہِ النَّبِیِّ الْاَمین صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہٖ وسلَّم
صَلُّوْ ا عَلَی الْحَبِیب ! صلَّی اللہُ تعالٰی عَلٰی محمَّد
مدنی منّو!دیکھاآپ نے!بچّہ ہویابڑاراہ خدا عَزَّوَجَلَّ میں جان قربان کرناہی ان کی زندگی کا مقصد تھا۔لہٰذاکامیابی خودآگے بڑھ کر ان کے قدم چومتی تھی۔حضرتِ سیِّدُناعُمَیررضی اللہ تعالیٰ عنہکاجذبۂ جہاداورشوقِ شہادت آپ نے ملاحَظہ فرمایااوربڑے بھائی سیِّدُناسعدابن ابی وقّاص رضی اللہ تعالیٰ عنہُکے تعاوُن کے بارے میں بھی آپ نے سنا۔بیشک آج بھی بڑابھائی اپنے چھوٹے بھائی کااورباپ اپنے بیٹے کاتعاوُن کرتاہے مگرصرف دُنیوی مُعاملات میں اورفَقَط دُنیوی مستقبِل کوروشن کرنے کی غرض سے۔افسوس!ہمارے پیش نظرصرف دنیاکی چندروزہ زندگی ہے جبکہ صحابہ کرام علیہم الرضوان کی نگاہو ں میں آخرت کی زندگی کی بہارتھی۔ہم دُنیوی آسائشوں پر نثار ہیں ا و ر وہ اُخروی راحتوں کے طلبگارتھے۔ہم دنیاکی خاطِر ہرطرح کی مصیبتیں جھیلنے کیلئے تیّاررہتے ہیں اوروہ آخرت کی سُرخروئی کی آرزومیں ہرطرح کی راحتِ دنیا کو ٹھوکرمارکرسخت مصائب وآلام اورخون آشام