اشکبار آنکھوں سے التجائیں کررہی ہوں گی: یارسولَ اﷲ صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہٖ وسلَّم! ہم اپنے جگر پارے آپ کے قدموں پر نثار کرنے کیلئے لائی ہیں ، آقا! ہمارے ارمانوں کی حقیر قربانیاں قَبول فرمالیجئے، سرکار! عمر بھر کی محنت وُصُول ہوجائے گی۔‘‘ اتنا کہہ کر ماں ایکبار پھر رونے لگی اور بَھرّائی ہوئی آواز میں کہا: کاش! میری گود میں بھی کوئی جوان بیٹا ہوتااور میں بھی اپنا نذرانۂ شوق لیکر آقا کی بارگاہ میں حاضِر ہوجاتی۔ مَدَنی مُنّاماں کو پھر روتا دیکھ کر مچل گیا اور اپنی ماں کوچُپ کرواتے ہوئے جوشِ ایمانی کے جذبے کے ساتھ کہنے لگا: میری پیاری ماں ! مَت رو،مجھی کو پیش کردینا۔ ماں بولی : بیٹا !تم ابھی کمسن ہو، میدانِ جنگ میں دشمنانِ خونخوار سے پالا پڑتا ہے، تم تلوار کی کاٹ برداشت نہیں کرسکو گے۔ مَدَنی مُنّے کی ضد کے سامنے بِالآخِر ماں کو ہتھیار ڈالنے ہی پڑے۔ نَمازِ فَجر کے بعدمسجدِ نبوی شریف کے باہَر میدان میں مُجاہِدین کا ہُجوم ہوگیا۔ ان سے فارِغ ہوکر سرکارِ مدینہ صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہٖ وسلَّم واپَس تشریف لا ہی رہے تھے کہ ایک پردہ پوش خاتون پر نظر پڑی جو اپنے چھ سالہ مَدَنی مُنّے کو لئے ایک طرف کھڑی تھی۔ نبی اکرم صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے حضرت ِسیِّدُنا بِلال رضی اﷲ تعالیٰ عنہ کو آمد کا سبب دریافت کرنے کیلئے بھیجا۔ سیِّدُنا