بِلال رضی اﷲ تعالیٰ عنہ نے قریب جاکر نگاہیں جھکائے آنے کی وجہ دریافت کی۔ خاتون نے بَھرّائی ہوئی آواز میں جواب دیا: آج رات کے پچھلے پَہر آپ اِعلان کرتے ہوئے میرے غریب خانے کے قریب سے گزرے تھے، اِعلان سُن کر میرا دل تڑپ اُٹھا۔ آہ! میرے گھر میں کوئی نوجوان نہیں تھا جس کا نذرانۂ شوق لیکر حاضِر ہوتی فَقَط میری گود میں یِہی ایک چھ سالہ یتیم بچّہ ہے جس کے والِدگُزَشتہ سال غَزوئہ بدر میں جامِ شہادت نوش کرچکے ہیں میری زندگی بھرکی پونجی یہی ایک بچّہ ہے، جسے سرکارِ عالی وقار صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کے قدموں پر نثار کرنے کیلئے لائی ہوں۔ حضرتِ سیِّدُنا بلال رضی اﷲ تعالیٰ عنہ نے پیار سے مَدَنی مُنّے کو گود میں اُٹھا لیا اور بارگاہِ رسالت میں پیش کرتے ہوئے سارا ماجرا عرض کیا۔ سرکار صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہٖ وسلَّمنے مَدَنی مُنّے پر بَہُت شفقت فرمائی۔ مگر کمسِنی کے سبب میدانِ جہاد میں جانے کی اجازت نہ دی۔ (ماخوذاز زلف و زنجیر ص۲۲۲ شبیر برادرز مر کز الاولیاء لاھور )
شعَزّوَجَلَّ کی اُن پَر رَحمت ہو اور ان کے صد قے ہماری مغفِرت ہو
ٰٰامین بِجاہِ النَّبِیِّ الْاَمین صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہٖ وسلَّم
صَلُّوْ ا عَلَی الْحَبِیب ! صلَّی اللہُ تعالٰی عَلٰی محمَّد