رحمۃاللہ تعالیٰ علیہ کے آنسو جب بیٹے کے چہرے پر گرے تو اُسے ہوش آگیا،کہنے لگا: ’’ابّا جان !آپ تو فرما رہے تھے کہ ہر مصیبت میں بھلائی ہے لیکن اب رونے کیوں لگے ؟‘‘ فرمایا: پیارے بیٹے باپ کااپنی اولاد کے دکھ درد کی وجہ سے غمگین ہوجانا اور رو پڑنا ایک فطری عمل ہے، باقی رہی یہ بات کہ اس مصیبت میں تمہارے لئے کیا بھلائی ہے؟تو ہو سکتا ہے اس چھوٹی مصیبت میں مبتلا کر کے تجھ سے کوئی بہت بڑی مصیبت دو ر کردی گئی ہو ۔جو اب سن کربیٹا خاموش ہوگیا ۔ پھرحضرت ِسیِّدُنا لقمان علیہ رحمۃ المنان نے سامنے نظر کی تو اب وہا ں نہ تو دھواں تھا اور نہ ہی سایہ وغیرہ۔ چِتْکَبرے گھوڑے (یعنی سفید وسیاہ رنگ کے گھوڑے)پر سوارایک شخص بڑی تیزی سے بڑھا چلاآرہا ہے، وہ سوار قریب آ کر اچانک نظروں سے اوجھل ہوگیا!اور آوازآنے لگی:میرے رب عَزَّوَجَلَّ نے مجھے حکم فرمایا: میں فُلاں شہر اور اس کے باشندوں کو زمین میں دھنسا دو ں۔ مجھے خبر دی گئی کہ آپ دونوں بھی اُسی شہر ہی کی طرف آرہے ہیں تومیں نے اللہ عَزَّوَجَلَّ سے دعا کی کہ وہ آپ کو اُس شہر سے دور رکھے۔ لہٰذا اُس نے یوں امتحان میں ڈالا کہ آپ کے بیٹے کے پاؤں میں ہڈّی چُبھ گئی اور اس طرح آپ دونوں اِس چھوٹی مصیبت کی و جہ سے ایک بہت بڑی مصیبت (یعنی اس عذاب والے شہر کی زمین میں دھنسنے ) سے بچ گئے ۔‘‘