یہ اُن دنوں کی بات ہے جب میں شہید مسجد ،کھارادَر، بابُ المدینہ کراچی میں اِمامت کی سعادت حاصل کرتا تھا،اور ہفتے کے اکثر دن بابُ المدینہ کے مختلف علاقوں کی مسجِدوں میں جا کر سنّتوں بھرے بیانات کر کرکے مسلمانوں کو دعوتِ اسلامی کا تعارُف کروا رہا تھااور اَلْحَمْدُ لِلّٰہ عَزَّوَجَلَّ مسلمانوں کی ایک تعداد میری دعوت قبول کر چکی تھی اور دعوتِ اسلامی اٹھان لے رہی تھی مگر ابھی دعوتِ اسلامی ایک کمزور پودے ہی کی مِثل تھی ۔واقِعہ یوں ہوا کہ مُوسیٰ لین، لیاری،بابُ المدینہ میں جہاں میری قِیام گاہ تھی وہاں کامیرا ایک پڑوسی کسی ناکردہ خطا کی بناء پر صرف وصرف غَلَط فہمی کے سبب مجھ سے سخت ناراض ہو گیا اور بِپھر کرمجھے ڈھونڈتا ہواشہید مسجد پہنچا۔میں وہاں موجود نہ تھا بلکہ کہیں سنّتوں بھرا بیان کرنے گیا ہوا تھا،لوگوں کے بقول اُس شخص نے مسجِدمیں نمازیوں کے سامنے میرے بارے میں سخت برہمی کا اظہار کیا اور کافی شور مچایا اور اعلان کیا کہ میں الیاس قادری کے (کارناموں) کابورڈ چڑھاؤں گا وغیرہ۔ میں نے کوئی انتِقامی کاروائی نہ کی نیز ہمّت بھی نہ ہاری اور اپنے مَدَنی کاموں سے ذرہ برابر پیچھے بھی نہ ہٹا۔ خدا کا کرنا ایسا ہوا