Brailvi Books

نیکیوں کی جزائیں اور گناہوں کی سزائیں
55 - 133
ہے: '' نوحہ تو انہوں نے کیا،(میری) خوبیاں مبالغہ کے ساتھ بیان تو انہوں نے کیں، منہ پرطمانچے توانہوں نے مارے ،مجھے کس گناہ کے سبب عذاب دیاجارہاہے ؟''تو اللہ عزوجل اس سے فرماتاہے : ''تيرا  گناہ یہ ہے کہ تُونے اپنے گھروالوں سے وعدہ نہ لیاتھاکہ وہ تیرے مرنے کے بعد مجھ سے جنگ نہیں کریں گے ،توجو اپنے عزیز واقارب کو اس بات کی وصیت کرنا بھول جائے گا کہ وہ اپنے رب عزوجل سے جنگ نہ کريں تو اللہ عزوجل اس کو عذاب دے گا۔'' ۱؎

(۶)۔۔۔۔۔۔شہنشاہِ مدینہ،قرارِ قلب و سینہ، صاحبِ معطر پسینہ، باعثِ نُزولِ سکینہ، فیض ْ گنجینہ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم کا فرمانِ عبرت نشان ہے:''نوحہ کرنے والی اگر اپنی موت سے ایک سال قبل تو بہ نہ کرے تواس کی توبہ قبول نہیں ہوگی کیونکہ اس کاگناہ بہت بڑاہے ،اگر وہ توبہ کئے بغیر مرگئی تو بروزِقیامت اس حال میں اُٹھے گی کہ اس پر تارکول کالباس اور خارش کی قمیص ہوگی،( جس پرنوحہ کیاگیااُس)مُردہ کے علاوہ کسی کو بھی دوسرے کے گناہوں کی وجہ سے عذاب نہیں دیا جاتا اورمردے کو اس کے گھروالوں کے رونے کے برابر عذاب دیاجاتاہے ۔''

    جب گھروالے کہتے ہیں :''اے ہماری عزت! اور اے ہماری وجاہت! تیرے بعد ہماراکون ہوگا؟پس میت اپنی قبر میں اُٹھ کر بیٹھ جاتی ہے اور عذاب کے
۱؎:فقیہ ملت حضرت علامہ مولانا مفتی جلال الدین احمد امجدی علیہ رحمۃ اللہ القوی فرماتے ہیں کہ(میت کو عذاب اس صورت میں ہو گا)''جبکہ اس نے رونے کی وصیت کی ہو یاوہاں رونے کا رواج ہواور اس نے منع نہ کیا ہویا یہ مطلب ہے کہ ان کے رونے سے میت کو تکلیف ہوتی ہے۔'' 

(انوار الحدیث،میت پر رونے کابیان، ص۲۱۸، ضیاء القرآن پبلی کیشنز)
Flag Counter