حضرتِ سیِّدُناجابر بن عبداللہرَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْھماسے روایت ہے کہ سردارِ مکۂ مکرَّمہ، سرکارِ مدینۂ منوّرہ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمنے اِرشاد فرمایا: اگر وہ بیمار پڑیں تو پوچھنے نہ جاؤ ، مر جائیں تو جنازے میں حاضِر نہ ہو ۔ ( اِبنِ ماجہ ج۱ص۷۰حدیث۹۲)
’’مدینہ‘‘ کے پانچ حُرُوف کی نسبت سے جنازے کے مُتَعلِّق پانچ مَدَنی پھول
’’ فُلاں میری نَماز پڑھائے‘‘ ایسی وصیت کا حکم{۱}میِّت نے وصیّت کی تھی کہ میری نَماز فُلاں پڑھائے یا مجھے فُلاں شخص غسل دے تو یہ وصیّت باطِل ہے یعنی اِس وصیّت سے (مرنے والے کے) ولی (یعنی سرپرست) کا حق جاتا نہ رہے گا، ہاں ولی کو اختیار ہے کہ خود نہ پڑھائے اُس سے پڑھوا دے۔(بہارِ شریعت ج۱ص۸۳۷،عالمگیری ج۱ص۱۶۳ وغیرہ)اگر کسی متّقی بُزُرگ یا عالِم کے بارے میں وصیّت کی ہو تو وُرَثاء کو چاہیے کہ اِس پر عمل کریں۔
امام میِّت کے سینے کی سیدھ میں کھڑا ہو
{۲} مُستَحب یہ ہے کہ میِّت کے سینے کے سامنے امام کھڑا ہو اور میِّت سے دُور نہ ہو میِّت خواہ مرد ہو یا عورت بالِغ ہو یا نابالِغ، یہ اُس وَقت ہے کہ ایک ہی میِّت کی نَماز پڑھانی ہو اور اگر چند ہوں تو ایک کے سینے کے مقابِل(یعنی سامنے) اورقریب کھڑا ہو۔ (دُرِّمُختارو رَدُّالْمُحتارج۳ص۱۳۴)