نماز میں لقمہ کےمسائل |
اسی بنا پر بسا اوقات نماز پڑھنے والا نمازمیں بھول کا شکار ہو جاتا ہے اگر چہ کہ وسواسِ شیطان کے علاوہ بھولنے کی اور بھی وجوہات ہیں مثلاًمقتدی کی طہارت میں کمی رہ جانا بھی امام کی یاداشت پر اثر انداز ہوتا ہے جیسا کہ حدیث پاک میں ہے'' ایک روز نبی صلي اللہ عليہ وسلم صبح کی نماز میں سورہ روم پڑھ رہے تھے اور متشا بہ لگا ۔ بعد نماز ارشاد فرمایا کیا حال ہے ان لوگوں کا؟ جو ہمارے ساتھ نماز پڑھتے ہیں اور اچھی طرح طہارت نہیں کرتے انہیں کی وجہ سے امام کو قراء ت میں شبہ پڑتا ہے ۔''
( نسائی شریف باب القراء ۃ فی الصبح بالروم ص۱۶۵ مطبوعہ بیروت)
اسی طرح بھول جانے کی طبی وجوہات بھی ہو سکتی ہیں لیکن یہ بات طے ہے کہ انسان خطا کا پتلا ہے بھول چوک اس کے خمیر میں شامل ہے۔لھذا جہاں شریعت مطہرہ نے عبادت کرنا سکھایا ہے اس کو پایۂ تکمیل تک پہنچانے کے لئے شرائط و ضوابط بتائے ہیں ۔یونہی انسان کی بھول اور اس کی خطا کو دیکھتے ہوئے شریعت مطہرہ نے عبادت میں کوئی کمی رہ جانے یا دوران عبادت کسی خلل کے آجانے پر اس کی تصحیح کا طریقہ بھی بتایا ہے مثلاً حج میں جب کوئی حرم یا احرام کی حرمت کی پاسداری نہ رکھ سکے تو اس پر جنایت لازم ہوتی ہے، یوں کبھی دم کبھی صدقہ دے کر یا روزہ رکھ کرکمی پوری کی جاتی ہے ، نماز میں بھولے سے واجب رہ جانے پرسجدہ سہو کر کے تلافی کی جاتی ہے۔ یونہی امام جب دوران ِقراء ت بھول جائے یا انتقال ِرکن میں خطا ہو مثلاً تیسری رکعت میں قعدہ میں بیٹھ گیا حالانکہ اس کو نہیں بیٹھنا تھا تو ایسی صورت میں نمازی کو لقمہ دینے کا حق دیا گیا ہے تاکہ وہ امام کو تنبیہ کر سکیں۔ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ و سلم کی تعلیمات ہمیں اس سلسلے میں بھی رہنمائی