شیطان کے وَسوَسے میں آکر کرامات کو عقل کے ترازو میں تولنے لگتاہے اوریوں گمراہ ہوجاتاہے ۔ یادرکھئے! کرامت کہتے ہی اُس خِرق عادت بات کوہیں جوعادتاً مُحال یعنی ظاہِری اسباب کے ذَرِیعے اُس کا صُدور ناممکن ہو مگر اللہ عَزَّوَجَلَّ کی عطاسے اولیائے کرام رَحِمَہُمُ اللہُ تَعَالٰیسے ایسی باتیں بسا اوقات صادِر ہوجاتی ہیں ۔ نبی سے قبل اَز اِعلانِ نبُوَّت ایسی چیزیں ظاہِر ہوں توان کو اِرہاصکہتے ہیں اور اِعلانِ نبُوَّت کے بعد صادِر ہوں تو معجزہ کہتے ہیں ۔ عام مؤمنین سے اگر ایسی چیزیں ظاہِر ہوں تو اسے مَعُونت اورولی سے ظاہِر ہوں تو کرامت کہتے ہیں ۔ نیز کافِریا فاسِق سے کوئی خِرقِ عادت ظاہِر ہوتو اُسے اِستِدراج (اِس۔ تِد۔ راج) کہتے ہیں ۔ (مُلَخَّص ازبہارِ شریعت ج۱ص۵۶،۵۸ مکتبۃ المدینہ باب المدینہ کراچی)
عقل کو تنقید سے فُرصت نہیں
عِشق پر اعمال کی بُنیاد رکھ
صَلُّوا عَلَی الْحَبِیْب! صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلٰی مُحَمَّد
غوثِ اعظم نے مِرگی کو بھگا دیا
ایک مرتبہ بارگاہ ِ غوثیَّت مآب میں حاضِر ہوکرایک شخص نے عرض کی: عالی جاہ ! میری زوجہ کومِرگی ہوگئی، حُضُور غوثِ پاک رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہنے فرمایا: ’’ اِس کے کان میں کہہ دو غوثِ اعظم کا حکم ہے کہ بغداد سے نکل جا۔ ‘‘ چُنانچِہ اُسی وَقْت وہ اچّھی ہوگئی ۔ (مُلَخَّص ازبَہجۃُ الاسرارلِلشَّطنو فی ص۱۴۰،۱۴۱دارالکتب العلمیۃ بیروت)