سے چُوک ہوئی تو میرا متوقع نفع خسارے میں تبدیل ہوجائے گا ۔اسی طرح ان نفوس ِ قدسیہ کو یہ خوف لاحق ہوتا ہے کہ اگر وہ دنیاوی لذّات اورآسائشوں میں کھو گئے تو ابدی زندگی ویران ہوسکتی ہے ۔وہ ابدی زندگی جوکبھی ختم ہونے والی نہیں ، ساٹھ یا ستّرسالہ دنیاوی زندگی کی رعنائیوں ،لذتوں اور آسائشوں میں پھنس کر اس حیاتِ دائمی کو بے رونق وبے کیف بنانا یقینا بے عقلی اور جنون ہے۔ فکرِ آخرت انہیں ایسا بے تاب صفت بنادیتی ہے کہ انہیں نہ تو یہاں کے عالیشان محلّات بھاتے ہیں اور نہ سیم وزر کی کھنک انہیں فریفتہ کرتی ہے۔دراصل ان کی نگاہیں تو اپنے خالق ومالک کی رضا پر جمی ہوتی ہیں اوروہ اِن تمام اشیاء سے زیادہ پُرشکوہ اور پر کیف جنتی نعمتوں کے متمنی ہوتے ہیں ۔یہی وہ ہستیاں ہیں جن کا ذکر بھی باعث ِ نزول ِ رحمت ہے ۔جیسا کہ حضرت سفیان بن عیینہ رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں: