مرآۃ المناجیح شرح مشکاۃ المصابیح جلد ہفتم |
روایت ہے حضرت عمرو ابن شعیب سے وہ اپنے والد سے وہ اپنے دادا سے راوی وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے راوی فرمایا جس میں دو عادتیں ہوں اسے اللہ شاکر صابر لکھتا ہے ۱؎ جو اپنے دین میں اپنے سے اوپر والے کو دیکھے تو اس کی پیروی کرے ۲؎ اور اپنی دنیا میں اپنے سے نیچے والے کو دیکھے تو اللہ کا شکر کرے اس پر کہ اللہ نے اسے اس شخص پر بزرگی دی ۳؎ تو اللہ اسے شاکر صابر لکھے گا اور جو اپنے دین میں اپنے سے کم کو دیکھے اور اپنی دنیا میں اپنے سے اوپر کو دیکھے تو فوت شدہ دنیا پر غم کرے اللہ تعالٰی اسے نہ شاکر لکھے نہ صابر ۴؎ (ترمذی)ابوسعید خدری کی حدیث کہ اے فقراء مہاجرین خوش ہوجاؤ اس باب میں ذکر ہوچکی جو فضائل قرآن کے بعد ہے ۵؎
شرح
۱؎ یعنی شکر اور صبر دونوں کا ایک شخص میں بیک وقت جمع ہونا مشکل معلوم ہوتا ہے کہ شکر تو نعمت ملنے پر ہوتا ہے اور صبر نعمت نہ ملنے یا چھن جانے پر ملتا ہے مگر جو ان دو چیزوں پر عمل کرے گا وہ بیک و قت صابر بھی ہوگا اور شاکر بھی،یہ ہے گویا اجتماع ضدین۔ ۲؎ یعنی اگر تم اچھے کام کرتے ہو تو ان پر فخر نہ کرو بلکہ ان حضرات کو دیکھو جو تم سے زیادہ نیکیاں کرتے ہیں خواہ وہ زندہ ہوں یا وفات یافتہ۔لہذا ہر مسلمان حضرات صحابہ و اہلِ بیت کے اعمال میں غور کرےکہ انہوں نے کیسی نیکیاں کیں تاکہ اس میں غرور نہ پیدا ہو اور زیادہ نیکیوں کی کوشش کرے،اس کی وجہ سے رب تعالٰی اسے صابر لکھے گا کہ جب یہ شخص ان بزرگوں کے سے کام نہ کرسکے گا تو افسوس کرے گا یہ اس کا صبر ہوگا۔ہم حضرات صحابہ کو دیکھ کر افسوس کریں کہ اس وقت ہم نہ ہوئے،ہم بھی حضور کے جمال سے آنکھیں ٹھنڈی کرتے،انکے قدموں پر جان فدا کرتے یہ ہے صبر۔شعر جوہم بھی واں ہوتےخاک گلشن لپٹ کےقدموں سےلیتےاترن مگر کریں کیا نصیب میں تو نامرادی کے دن لکھے تھے ۳؎ اس چیز کے سوچنے سے اس پر بڑی سے بڑی مصیبت آسان ہوجاوے گی اور وہ رب تعالٰی کا شکر ہی کرے گا۔ہم نے آزمایا ہے کہ کسی کا جوان بیٹا فوت ہوجائے اسے صبر نہ آوے وہ حضرت علی اکبر کی شہادت میں غور کرے ان شاءاللہ فورًا صبر نصیب ہوگا بلکہ اپنے آرام پر شکر کرے گا۔ ۴؎ بلکہ ایسے شخص کی زندگی حسدجلن،بے صبری اور دل کی کوفت میں گزرے گی،امیروں کو دیکھ کر جلتا بھنتا رہے گا کہ ہائے میرے پاس مال کم ہے اوراپنی عبادت پر فخر کرے گا کہ فلاں بے نماز ہے اور میں نمازی ہوں میں اس سے کہیں اچھا ہوں،یہ ہے اس کا تکبر،رب تعالٰی فرماتاہے:"لِّکَیۡلَا تَاۡسَوْا عَلٰی مَا فَاتَکُمْ وَ لَا تَفْرَحُوۡا بِمَاۤ اٰتٰىکُمْ"۔فرمایا نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے کہ جو شخص دنیا کی کمی پر رنج کرے وہ ایک ہزار سال کی راہ دوزخ سے قریب ہوجاوے گا اور جو شخص دینی کوتاہی پر رنج کرے گا وہ جنت سے ایک ہزار سال کی راہ قریب ہوجاوے گا۔(مرقات یہ ہی مقام)خیال رہے کہ دین میں ترقی کرنے کی کوشش کرنا منع نہیں بلکہ مالداروں کی مالداری پر رشک کرنا ممنوع ہے۔ ۵؎ یعنی وہ حدیث مصابیح میں یہاں مذکور تھی ہم نے وہاں بیان کر دی کہ وہ وہاں کے زیادہ مناسب تھی۔