مرآۃ المناجیح شرح مشکاۃ المصابیح جلد ہفتم |
روایت ہے حضرت عبداللہ ابن مغفل سے ۱؎ فرماتے ہیں کہ ایک شخص نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا عرض کیا میں آپ سے محبت کرتاہوں ۲؎ فرمایا سوچ لو تم کیا کہتے ہو ۳؎ وہ بولا اللہ کی قسم میں آپ سے محبت کرتا ہوں ۴؎ تین بارکہا تو فرمایا کہ اگر تو سچا ہے تو کیل کانٹے سے فقیری کیلئے تیار ہوجا۵؎ یقینًا فقیری مجھ سے محبت کرنے والے کی طرف تیز دوڑتی ہے بمقابلہ سیلاب کے اپنی انتہاء کی طرف ۶؎ (ترمذی)اور فرمایا یہ حدیث غریب ہے۔
شرح
۱؎ آپ مشہور صحابی ہیں ،بیعت الرضوان میں شریک ہوئے،اولًا مدینہ منورہ میں پھر بصرہ میں رہے۔(اشعہ) ۲؎ یہ عرض کرنا یا اس حدیث پر عمل ہے کہ جس سے تم کو محبت ہو اس سے کہہ دو یا اس آیت کریمہ پر عمل ہے "وَ اَمَّا بِنِعْمَۃِ رَبِّکَ فَحَدِّثْ"۔حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے محبت اللہ تعالٰی کی بڑی سے بڑی نعمت ہے اس کا اظہار وہ بھی حضور انور کے سامنے یہ اس نعمت کا شکریہ ہے ورنہ حضور کو تو پتھروں کے دل کا حال معلوم ہے،فرماتے ہیں احد ہم سے محبت کرتا ہے۔ ۳؎ یعنی خوب سوچ کر یہ دعویٰ کرو تم بہت ہی بڑی چیز کا دعویٰ کررہے ہو مجھ سے محبت کوئی معمولی چیز نہیں ہے۔ ۴؎ محبت سے مراد بہت ہی محبت ہے ورنہ ہر مؤمن کو حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے محبت ہے حضور کی محبت ہی تو اصل ایمان ہے، حضور کی محبت سے ہی خدا کی محبت،کلمہ قرآن کی محبت اسی محبت سے حاصل ہوتی ہے حضور سے تعلق و محبت ایمان کی اصل ہے۔ ۵؎ تجفاف ت کے کسرہ اور جیم کے سکون سے بمعنی آلات جنگ خود ذرہ وغیرہ یعنی تم تیار ہوجاؤ کہ فقیری کے آفات کا مقابلہ کرسکو۔ ۶؎ یہاں بھی فقیری سے مراد دل کی مسکینیت ہے اور دل کا محبت مال سے خالی ہوجانا ہے فقیری اور ناداری آفتوں کے برداشت کرنے پر تیار ہوجانایعنی جسے اللہ میری محبت دیتا ہے اس کے دل سے محبت مال وغیرہ یک دم نکال دیتا ہے لہذا اس حدیث پر یہ اعتراض نہیں کہ بعض صحابہ بلکہ عہد فاروقی میں سارے صحابہ بڑے مالدار تھے تو کیا انہیں حضور سے محبت نہ تھی ضرور تھی،ان سب کے دل محبت مال سے خالی تھے۔یہاں مرقات نے فرمایا کہ دنیا میں بہت آفات انبیاءکرام پر آتی ہیں اور یہ ہے ان کا محب تو اس پر آفتیں آئیں گی۔