Brailvi Books

مرآۃ المناجیح شرح مشکاۃ المصابیح جلد ہفتم
96 - 4047
حدیث نمبر 96
روایت ہے حضرت انس سے انہوں نے فرمایا کہ فرمایا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کہ میں اللہ کی راہ میں بہت ڈرایا گیا جتنا کوئی نہیں ڈرایا جاتا  ۱؎ اور میں اللہ کی راہ میں ستایا گیا ایسا کوئی نہیں ستایا جاتا ۲؎ اور مجھ پر تیس دن و رات ایسے گزرے ہیں کہ میرے اور بلال کے لیے کھانا نہ تھا جو کلیجے والا کھا سکے سواء اس قدر کے جسے بلال کی بغل چھپائے ہوئے تھی ۳؎ (ترمذی)اور فرمایا کہ اس حدیث کے معنے یہ ہیں کہ جب نبی صلی اللہ علیہ وسلم مکہ معظمہ سے روانہ ہوئے اور آپ کے ساتھ بلا ل تھے اور بلال کے ساتھ اتنا کھانا تھا جسے وہ اپنی بغل میں دبائے ہوئے تھے۴؎
شرح
۱؎ یعنی دین کی تبلیغ قرآن کریم کی اشاعت کے سلسلے میں جتنا کفار نے مجھے ڈرایا ہے اتنا کسی نبی کو ان کی قوم نے نہیں ڈرایا۔

۲؎ اس فرمان عالی ٍسے دو مطلب ہوسکتے ہیں:  ایک یہ کہ دین کی تبلیغ میں جتنا کفار نے مجھے ستایا اتنا کسی نبی کو نہیں ستایا۔دوسرے یہ کہ جب کفار مکہ نے مجھے بہت ستایا تب میں اکیلا تھا میرے ساتھ طاقتور مسلمان نہ تھے،جب لوگ ایمان لائے تو کفار کا زور کم ہوگیا انہیں کم ستایا گیا،مرقات نے یہ ہی دوسرے معنی کیے ،اشعۃ اللمعات نے پہلے معنی کیے ۔نوح علیہ السلام نے ساڑھے نو سو سال اپنی قوم سے تکلیفیں اٹھائیں اور حضور انور نے تئیس سال مگر یہ تئیس سال کی تکالیف ان ساڑھے نو سو برس کی تکالیف سے سخت تر ہیں،چونکہ حضور نبیوں کے سردار ہیں اس لیے آپ کی مشکلات بھی زیادہ ہیں۔ایک شاعر کہتا ہے شعر

بڑوں کو دکھ بہت ہیں چھوٹوں سے دکھ دور 		تارے سب نیارے ہیں گہن چاند اور سورج

یعنی چاند سورج کو گہن لگتا ہے تاروں کو نہیں لگتا،بڑوں کو دکھ ہوتا ہے چھوٹوں کو نہیں۔

۳؎ یہ واقعہ ہجرت کا نہیں ہے کیونکہ ہجرت میں حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ صرف ابوبکر صدیق تھے حضرت بلال ساتھ نہ تھے بلکہ یہ واقعہ طائف شریف تبلیغ کے لیے تشریف لے جانے کا ہے۔خیال رہے کہ نبوت کے دسویں سال جناب ابوطالب کی وفات ہوئی اور پانچویں دن حضرات ام المؤمنین خدیجۃ الکبریٰ کی وفات ہوگئی،حضور نے اس سال کا نام عام الحزن رکھا یعنی رنج و غم کا سال۔تین ماہ کے بعد آخر شوال میں حضور صلی اللہ علیہ وسلم طائف کی تبلیغ کے لیے تشریف لے گئے اس سفر میں آپ کے ساتھ حضرت زید ابن حارثہ تھے،آپ نے طائف کے سردار بنی ثقیف کے معتمد شخص عبید یا لیل ابن عبد کلال کو تبلیغ کی اس نے آپ کے پیچھے طائف کے آوارہ لوگ اور وہاں کے لونڈے لگادیئے جنہوں نے حضور انور کو پتھروں سے زخمی کردیا،جناب زید ابن حارثہ نے آپ کو بچالیا تو ان کا سر زخموں سے چور ہوگیا تب جبریل امین نے آکر عرض کیا یارسول اللہ حکم دیں تو ہم طائف کے پہاڑوں کو ملادیں جس سے یہ لوگ پس جاویں،فرمایا اگر یہ لوگ ایمان نہ لائے تو ممکن ہے ان کی اولاد مسلمان ہوجائے۔شعر 

الہٰ العالمین کر رحم طائف کے مکینوں پر		الٰہی پھول برسا پتھروں والی زمینوں پر

وہ واقعہ بھی یہاں مراد نہیں کیونکہ اس سفر میں حضرت بلال حضور کے ساتھ نہ تھے بلکہ حضرت زید ابن حارثہ ساتھ تھے ،یہاں طائف کا کوئی اور سفر مراد ہے جس میں حضرت بلال حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ تھے۔(لمعات،مرقات)بعض نے فرمایا حضور نے طائف کے بہت سفر کیے ہیں۔ذوکبد فرماکر یہ بتایاکہ ہم دونوں کے پاس کوئی ایسی چیز نہ تھی جو کوئی جانور بھی کھا سکے چہ جائیکہ انسان کھائے۔

۴؎  ظاہر ہے کہ بغل میں کھانا بہت ہی تھوڑا سا سمائے گا چار چھ روٹیاں اتنا کھانا اور تیس دن دو صاحبوں کا گزارہ۔اس سید الصابرین پر لاکھوں سلام ہوں اللہ تعالٰی ہم تمام کی طرف سے جزا الجزاء عطا فرمائے کہ تبلیغ میں ایسی مشقیںئ اٹھائیں جن کی مثال نہ ملے گی۔
Flag Counter