۱؎ جیسے جیل خانہ میں قیدی کا دل نہیں لگتا اگرچہ وہاں کتنا ہی آرام ہو خواہ اے کلاس کی جیل ہو یا سی کلاس کی،اسی طرح مؤمن دنیا میں دل نہیں لگاتا اگرچہ اسے بڑا ہی آرام ہو لہذا حدیث سے یہ لازم نہیں کہ مسلمان کو دنیا میں تکلیف ہی ہے تکلیف اور چیز ہے دل نہ لگنا کچھ اور چیز،جیسے قحط سالی میں انسانوں کو ذلت قلت تکلیف ہوتی ہے ایسے ہی مسلمان کو دنیا میں کوئی نہ کوئی تکلیف رہتی ہی ہے یہ آزمودہ چیز ہے بلکہ تکالیف ناکامیاں ہی انسان کو انسان بنا کر رکھتی ہیں،عیش میں غفلت ہوتی ہے تکلیف میں بیداری۔
۲؎ خیال رہے کہ مؤمن کو آخرت میں اس قدر آرام و راحتیں ہیں کہ ان کے مقابل دنیا کی بادشاہت بھی جیل ہے اور کافر کو آخرت میں ایسی مصیبتیں ہوں گی کہ ان کے مقابل دنیا کی سخت سے سخت تکلیف بھی گویا جنت ہوگی،مؤمن مر کر دنیاوی جنجال سے چھوٹتا ہے کافر مر کر جنجال میں پھنستا ہے،موت ایک ریل ہے جو مؤمن کو عیش خانہ اور کافر کو جیل خانہ تک پہنچاتی ہے جیسے ایک ہی ریل میں کسی کی برات جارہی ہے کسی کو پھانسی کے لیے لے جایا جارہا ہے۔