۱؎ ضعفاء سے مراد وہ نیک مؤمن ہیں جن میں کبھی شیخی شان نہیں ہوتی۔حضور صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں کہ مجھے ایسے نیک مؤمنوں میں ڈھونڈو میں ان میں ملوں گا۔ڈھونڈو کا مطلب یہ ہے کہ ان فقراء و مساکین کی خدمت کرو جس سے وہ راضی ہوجائیں ان کی مجلسوں میں حاضر رہو۔یہاں مرقات نے بحوالہ ابن مالک فرمایا کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم روحانی توجہ سے تو ہر دم ان مقبولوں کی مجلس میں رہتے ہیں مگر کبھی کبھی جسمًا وصورۃً بھی ان مجلسوں میں تشریف فرما ہوتے ہیں۔(مرقات)ایسی پاک مجلسوں میں اگر کوئی اجنبی شخص پرنظر پڑے تو اس سے مصافحہ ضرور کرے،ممکن ہے کہ اس گروہ میں کوئی شہسوار ہو۔حضرت جبریل شکل انسانی میں حضور کی بارگاہ میں آتے تھے،خضر علیہ السلام مختلف انسانی شکلوں میں لوگوں سے ملاقات کرتے رہتے ہیں،حضور صلی اللہ علیہ وسلم اپنے بعض امتیوں کے جنازہ میں شرکت کرتے ہیں،حضرت ابوہریرہ اور حضور نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت شاہ عبدالعزیز صاحب کی پہلی محراب ختم ہونے پر ختم شریف کی مجلس میں شرکت فرمائی۔چنانچہ فتاویٰ عزیزیہ کے مقدمہ ص۱۳ میں شاہ عبدالعزیز صاحب کے حالات میں یہ واقعہ بالتفصیل مذکور ہے۔عبارت یہ ہے نامش پر سید ندگفت ابوہریرہ کہ نعت آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم فرمودہ بودند امروز ختم قرآن عبدالعزیز است ماخواہیم رفت و مراد رجاء دیگر بکارے فرستادہ بودند ازیں جہت تاخیر واقع شد ایں گفت و غائب شد۔فتاویٰ عزیزیہ ص ۱۳ عرس بزرگاں،میلاد شریف کی مجلسوں،بزرگان دین کی زیارات میں شرکت کرنے کا مقصد یہ ہی ہوتا ہے کہ شاید یہاں حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی قدم بوسی نصیب ہوجائے۔
گدا بن کر میں ڈھونڈوں تم کو گھر گھر مرے آقا مجھے چھوڑا ہے کس پر
آخرت میں حضور کے ملنے کے تین مقام ہیں: لب کوثر،میزان،صراط۔دنیا میں حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے ملنے کی جگہ بزرگوں کی مجلسیں ہیں ان سے دوری اللہ رسول سے دوری ہے۔مولانا فرماتے ہیں شعر
چوں شدی دوراز حضور اولیاء ایں چنیں واں دور گشتی از خدا
۲؎ کیونکہ ضعفاء میں قطب اور اوتاد ولی ہوتے ہیں،قطبوں اوتادوں سے دنیا کا نظام قائم ہے اگر یہ رہیں تو دنیا رہے جیسے خیمہ چوب اور طناب میخوں سے قائم ہے اگر یہ نہ رہیں تو خیمہ گرجائے آسمان کا خیمہ ان بزرگوں سے قائم ہے۔(مرقات)