مرآۃ المناجیح شرح مشکاۃ المصابیح جلد ہفتم |
روایت ہے حضرت انس سے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے عرض کیا الٰہی مجھے مسکین زندہ رکھ ۱؎ مسکین ہی وفات دے ۲؎ اور مسکینوں کے ٹولہ میں حشر نصیب کر ۳؎ تو جناب عائشہ نے عرض کیا یارسول اللہ یہ کیوں ۴؎ فرمایا کہ مسکین لوگ جنت میں غنیوں سے چالیس برس پہلے جائیں گے ۵؎ اے عائشہ مسکین کو خالی نہ پھیرو اگرچہ کھجور کی قاش ہی ہو دے دو ۶؎ اے عائشہ مسکینوں سے محبت کرو انہیں قریب رکھو تاکہ اللہ تعالٰی قیامت میں تمہیں قریب کردے ۷؎ (ترمذی،بیہقی شعب الایمان)اور ابن ماجہ نے حضر ت ابوسعید سے فی زمرۃ المساکین تک روایت کی۔
شرح
۱؎ یہاں مسکین سے مراد دل کے مساکین ہیں جن کے دلوں میں تکبر نہ ہو نرمی اور تواضع ہو۔متواضع بادشاہ بھی مسکین ہے اور متکبر فقیر مسکین نہیں۔مسکین یا بنا ہے مسکنۃ سے بمعنی انتہائی متواضع،یا سکون یا سکینہ سے بمعنی وقار قرار اطمینان رضایا بالقضاء،یہ انسان کی اعلٰی صفتیں ہیں۔یہود کے متعلق جو مسکنہ آیا ہے اس سے مراد خواری رسوائی ہے،رب تعالٰی فرماتا ہے: " وَضُرِبَتْ عَلَیۡہِمُ الذِّلَّۃُ وَالْمَسْکَنَۃُ"لہذا حضرت عثمان اگرچہ مال سے غنی ہیں مگر دل سے مسکین و متواضع ہیں۔جب حضور انور کے پاس بہت دولت آئی تب بھی حضور دل کے متواضع رہے لہذا حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی یہ دعا قبول ہوئی۔ ۲؎ یعنی میرا یہ انکسار و تواضع عارضی نہ ہو دائمی ہو وصال تک قائم رہے کہ میں اپنی نظر میں متواضع ہوؤں اور دوسروں کی نظر میں عظیم الشان۔ ۳؎ یہ ہے مساکین کی انتہائی عظمت کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ نہ فرمایا کہ مساکین کو میرے زمرہ میرے گروہ میں اٹھا بلکہ فرمایا کہ مجھے مساکین کے زمرہ میں اٹھا۔ایک بادشاہ فقراء و مساکین صالحین پر گزرا،انہوں نے بادشاہ کی طرف کوئی توجہ نہ کی، بادشاہ غضب ناک ہو کر بولا تم لوگ کون ہو وہ بولے ہم وہ لوگ ہیں کہ ترک دنیا ہماری محبت ہے اور آخرت چھوڑنا ہم سے عداوت ہے ،بادشاہ اس بات سے کانپ گیا اور بولا کہ مجھ میں تم سے عداوت کی طاقت نہیں۔(مرقات)مطلب یہ ہے کہ قیامت میں مساکین کی ایک جماعت ہو ان میں میں بھی ایک ہوں،اگر حضور صلی اللہ علیہ وسلم اس جماعت کے امام ہیں مگر اپنے کو ان میں سے ایک قرار دینا ان کی عزت افزائی ہے۔ ۴؎ یعنی یا رسول اللہ حضور اپنے کو مساکین میں محشور ہونے کی دعا کیوں فرمارہے ہیں ان میں کیا خوبی ہے۔ ۵؎ لہذا اگر میں بھی مسکینوں کے زمرہ میں ہوا تو جنت میں غنی لوگوں سے چالیس سال پہلے جاؤں گا۔خیال رہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم جنت کے دروازے پر بہت ہی پیچھے پہنچیں گے اولًا اپنی امت کو صراط سے گزار کر وہاں پہنچائیں گے مگر دروازہ جنت بند ہوگا ساری مخلوق دروازہ پر جمع ہوجائے گی،جب حضور انور وہاں نہایت شان سے پہنچیں گے تو دروازہ حضور کے لیے کھلے گا،سب سے پہلے حضور انور پھر انبیاء کرام پھر حضور کی امت بعد میں دوسری امتیں داخل ہوں گی،حوگر انور کا یہ فرمان انتہائی تواضع کے لیے ہے۔ ۶؎ یعنی جب کوئی مسکین سوال کرنے آئے تو جو میسر ہو اسے دے دو،نہ ہو تو اس سے اچھی بات کہہ دو۔ایک بار ام المؤمنین انگور کھارہی تھیں کہ کوئی سائل آیا آپ کے پاس صرف ایک دانہ انگور بچا تھا آپ نے وہ ہی پیش کردیا،سائل ناراض ہوگیا تو آپ نے یہ آیت تلاوت کی"فَمَنۡ یَّعْمَلْ مِثْقَالَ ذَرَّۃٍ خَیۡرًا یَّرَہٗ"اور فرمایا انگور تو ذرہ سے بڑا ہے۔(مرقات) ۷؎ معلوم ہوا کہ دنیا میں جو شخص مساکین اولیاء اللہ سے قریب ہوگا وہ کل قیامت میں خدا سے قریب ہوگا۔مولانا فرماتے ہیں شعر ہر کہ خواہد ہمنشینی با خدا او نشینند در حضور اولیاء اس شعر کا ماخذ یہ ہی حدیث ہے۔